چناں چہ علامہ شامی رحمہ اللہ اپنے رسالے ’’تنبیہ الغافل والوسنان‘‘ میں جو انہوں نے رؤیتِ ہلال کے مسئلے پر ہی لکھا ہے، فرماتے ہیں :
’’والشرع اکتفیٰ بالعدالۃ الظاہرۃ ، و فوّض الباطن إلیٰ العالم بالسرائر۔‘‘
p: اور شریعت نے ظاہری عدالت کو کافی قرار دیا ہے اور باطن کو اللہ کی طرف سپرد کر دیا ہے ،جو پو شیدہ چیزوں کو جاننے والا ہے ۔(۲)
الغرض! موجودہ دور میں اگر چہ فسق ظاہر ہے؛ لیکن ایسے لوگوں کا وجود ، جن کو مذکورہ تعریف پر عادل کہا جائے ، نا پید و نا در نہیں ہے ؛ اس لیے عدالت کی تعریف میں ترمیم کا سوال،ناقابلِ التفات ہے، اسی لیے حضرت مولانامفتی عزیز الرحمان صاحب رحمہ اللہ نے ’’فتاویٰ دار العلوم‘‘ میں اس سلسلے میں کسی بھی ترمیم کی گنجائش نہیں دی ہے۔
چناں چہ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
عدل کی وہی تفسیر اب بھی ہے ، جوفقہا نے لکھی ہے ، وہی معتبر ہے،اختلافِ عصر(زمانے)سے عدالت کی تعریف میں کوئی فرق نہیں پڑے گا،جس جگہ فقہا نے عدالت شرط کی ہے ،وہاں ایسی ہی عدالت کی ضرورت ہے اور جہاں مستورکی گواہی بھی کافی ہے ، جیسے روزہ رکھنے میں اوراثبات رمضانیت میں ،وہاں ثبوتِ عدالت کی ضرورت نہیں ؛ مگرفسق بھی ظاہرنہ ہو۔ (۱)
ہاں ! بعض اوقات اس سلسلے میں پریشانی لاحق ہو سکتی ہے ،وہ اس طرح کہ کسی علاقے میں کسی وقت فسق کی کثرت کے باعث ہو سکتا ہے کہ عام معاملات کی شہادت
------------------------------
(۲) مجموعۃ رسائل ابن عابد ین :۱ /۲۳۶
(۱) فتا ویٰ دار العلوم: ۶/۳۵۰