علامہ شامی رحمہ اللہ نے عدالت کی تعریف یہ بیان کی ہے:
’’ العدالۃ : أن یکون مجتنباً للکبائر، ولا یکون مصرًّا علی الصغائر ، ویکون صلاحہٗ أکثرَ من فسادہٖ ، وصوابُہ أکثر من خطأہ۔‘‘(۱)
p: عدالت یہ ہے کہ وہ شخص کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرتا ہو اور صغیرہ گناہوں پر اصرار نہ کرتا ہواور اس کی اچھائی اس کی برائی سے اور اس کی درستی اس کی خطا سے زیادہ ہو ۔
اور اسی تعریف کو صاحبِ در ِمختار نے اختیار کیا ہے اور علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ نے اس تعریف کو’’ حسن‘‘ قرار دیا ہے ۔
علامہ شامی رحمہ اللہ نے کتاب الصوم میں زیر ِبحث مسئلے ہی میں عدالت کی تعریف یہ کی ہے کہ
عدالت ایک ملکہ ہے، جو تقوے اور مروت کو لازم پکڑنے پر ابھارتا ہے ، -اس کے بعد فرماتے ہیں کہ- شرط ا س کاادنیٰ مرتبہ ہے اور وہ کبا ئر اور اصرار علی الصغائر کا ترک ہے اورمروت کے خلاف کاموں کا چھوڑ دینا ہے۔(۱)
پھر یہ عدالت کا ادنیٰ مرتبہ بھی خبر وگواہی دینے والے کی صرف ظاہری حالت پر رکھا گیا ہے کہ بہ ظاہر اگر نیک آدمی ہے، تو یہی بات کافی ہے۔
------------------------------
(۱) الدرالمختارمع الشامي :۸/۱۷۸
(۱) ’’ قال:العدالۃ ملکۃ ، تحمل علیٰ ملازمۃ التقویٰ والمروء ۃ ، والشرط أدناھا وھو’’ ترک الکبائر والإصرار علی الصغائر و ما یخل بالمروء ۃ ‘‘ ۔
(الشامي :۳/۳۵۲)