خلاف ہو ، اب ہوائی جہاز کی زیر ِبحث رؤیت کو دیکھیے کہ کیا اس سے ظنِ غالب چاند کاحاصل ہوجاتاہے یا نہیں ؟
ظاہر ہے کہ مطلع صاف ہونے کی صورت میں نیچے والوں کا چاند کو نہ دیکھ سکنا اور ہوائی جہاز سے اس کادیکھ لینا؛اس رؤیت میں ایک احتمال تویہ پیداکرتاہے کہ دیکھنے والوں نے کسی اورچمکتے ہوئے ستارے کودیکھ لیا ہو،ورنہ نیچے والوں کومطلع صاف ہونے کے باوجود کیوں نظر نہ آیا؟اور دوسرا احتمال یہ پیداکردیتاہے کہ جہاز کی پرواز اتنی بلند ہوگئی ہوگی کہ سطح ِزمین کاافق بدل گیا؛اس لیے نیچے سے دیکھنے والوں کو نظر نہ آیا۔
ان احتمالات کے ساتھ ظنِ غالب حاصل نہیں ہوسکتا؛اس لیے اگرچہ متعدد لوگوں نے ہوائی جہازسے چانددیکھاہو،اس کااعتبارنہیں کیا جاسکتاہے ؛کیوں کہ فقہانے’’ جمِ غفیر‘‘کی شرط اس لیے لگائی تھی کہ چاندہوجانے کاظنِ غالب حاصل ہوجائے؛ جب یہاں یہ حاصل نہ ہوا،تو’’ جمِ غفیر‘‘کابھی اعتبارنہیں کیاجاسکتا،اسی کوبعض علما نے اختیار فرمایاہے۔
راقم کہتاہے کہ اگرکسی طرح ان احتمالات کوختم کیاجاسکتاہو اورظنِ غالب حاصل ہوجائے، توپھرہوائی جہازکی عام رؤیت یامتعددہوائی جہازوں کی رؤیت کومعتبرقراردیناچاہیے؛ جب کہ علامہ شامی رحمہ اللہ مطلع صاف ہونے کی صورت پرایک شخص کی خبرکوبھی اس وقت کافی قراردیتے ہیں ، جب کہ وہ کسی بلند جگہ پر ہو اوراس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ
’’ أن الرؤیۃ تختلف باختلاف صفوالھواء وکدرتہٖ وباختلاف انھباط المکان وارتفاعہٖ ، فإن ھواء الصحراء أصفیٰ من ھواء المصر، وقد یری الھلال أعلی الأماکن