اتنی بلندی پر جہاز سے پرواز کیا کہ سطحِ زمین اور اس بلندی کے افق میں کوئی فرق نہیں ہے، تو اس چاند کا اعتبار کیا جائے گا، اس کی نظیر، فقہ کا یہ جزئیہ ہے:
فأما إذ کانت متغیمۃ أو جاء من خارج المصر أو کان في موضع مرتفع فإنہٗ یقبل عندنا۔(۱)
p: جب آسمان ابر آلود ہو یا چاند دیکھنے والا شہر کے باہر سے آیا ہویا کسی اونچی جگہ میں ہو، تو اس کا قول ہمارے نزدیک مقبول ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ بلند جگہ سے چاند دیکھ کر خبر دے، تو اس کا قول قابلِ اعتبار ہوگا اور اس کی وجہ بہ قولِ فقہا یہ ہے کہ بعض اوقات چاند بلندی سے دیکھا جا سکتا ہے، جب کہ نیچے سے وہ نظر نہیں آتا ۔(۲)
اس سے ہوائی جہاز سے دیکھے ہوئے چاند کا معتبر ہونا معلوم ہوا؛لیکن جیسا کہ اوپر بھی اشارہ کیا گیا ہے،جہاز کی پرواز اگر بہت زیادہ بلند ہو جائے کہ وہاں تک
------------------------------
(۱) رد المحتار:۳/۳۵۷
(۲) نقل الشامي رحمہ اللہ :’’ وجہ ظاھر الروایۃ أن الرؤیۃ تختلف باختلاف صفوالھواء وکدرتہٖ وباختلاف انھباط المکان وارتفاعہٖ ، فإن ھواء الصحراء أصفیٰ من ھواء المصر، وقد یری الھلال أعلی المکان ما لا یری من الأسفل، فلا یکون تفردہ بالرؤیۃ خلاف الظاھر بل علی موافقۃ الظاھر ‘‘۔ (رد المحتار:۳/۳۵۷)
وذکر الطحاوي:أنہٗ تقبل شھادۃ الواحد إذا جاء من خارج المصر وکذ ا إذا کان علیٰ مکان مرتفع ۔ (الفتاوی الہندیۃ :۱/۲۱۸)