چھٹانک ہے اور آدھے صاع کی مقدار ڈیڑھ سیر تین چھٹانک ہے اور درہم کے حساب سے صاع کی مقدار تین سیر چھ چھٹانک تین تولہ اور نصف صاع کی مقدار ڈیڑھ سیر تین چھٹانک ڈیڑھ تولہ ہے اور بہ حسابِ مُد صاع کی مقدار ساڑھے تین سیر ،چھ ماشہ اور نصف صاع کی مقدار پونے دو سیر تین ماشہ ہوتی ہے ،ان تینوں مقداروں میں تھوڑا تھوڑا فرق ہے؛ مگر چوں کہ آخری مقدار میں آدھا سیر زیادہ بتایا گیا ہے؛ اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ صدقۂ فطر میں اسی کے لحاظ سے نکالا جائے؛ یعنی گیہوں دینا ہو، تو پونے دو سیر تین ماشے کے حساب سے دینا چاہیے ،اسی میں احتیاط ہے اور جَوْوغیرہ دینا ہو، تو اس کا دوگنا یعنی ساڑھے تین سیر ،چھ ماشہ دینا چاہیے ۔(۱)
مگر اب مشکل یہ ہے کہ تولہ ،ماشہ ،سیر اور چھٹانک کا زمانہ بھی ختم ہو گیا اور اب ہم اس قابل ہی نہ رہے کہ ان چیزوں سے حساب کر سکیں ؛بل کہ یہ الفاظ عام طور پر غیر مانوس اور اس سے حساب و کتاب تقریباً مفقود ہو گیا ہے اور اس کی جگہ گراموں (Gram)کا حساب رائج ہو گیا ہے اور بہ قول میرے استاذ’’ حضرت مولانامفتی مہربان علی صاحب رحمہ اللہ ‘‘ :
’’آج کل چوں کہ میٹرک اوزان اور پیمانوں کا عام رواج ہو گیا ہے؛ اس لیے کسی وزن کو تولے، ماشے سے سمجھنا بھی اب اتنا آسان نہ رہا ؛ جتنا کہ کلوگرام اور ملی گرام اور کلومیٹر وغیرہ سے سمجھنا اور سمجھانا سہل ہوگیا۔‘‘(۲)
اس لیے اب علما کویہ ضرورت محسوس ہوئی کہ ان شرعی اوزان کوکلو گرام، ملی
------------------------------
(۱) جواہر الفقہ: ۱/۴۲۷
(۲) امداد الاوزان:۱/۲