جیسا کہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے ۔(۱)
جب آپ ص کے خیال میں ایک مد گیہوں دو مدکھجور کے برابر ہیں ، تو دو مد گیہوں چار مد کھجور یا جو کے برابر ہوئے اور دو مد کا آدھا صاع اور چار مد کا ایک صاع ہوتا ہے؛ لہٰذا اکثر علما نے اسی کے مطابق صدقۂ فطر کی مقدار میں یہ لکھا ہے کہ
کھجور یا جو دینا ہو، تو ایک صاع اور گیہوں دینا ہو،توآدھا صاع دینا ہوگا۔(۲)
پھر جب علما نے دیکھا کہ مد، صاع، رطل وغیرہ شرعی و فقہی اوزان و پیمانے رواج پذیر نہ رہے اور ان کی جگہ تولہ، ماشہ، سیر و چھٹانک وغیرہ جدید پیمانوں و اوزان نے لے لی ہے، تو انہوں نے نہایت تحقیق و کاوش سے قدیم پیمانوں اور اوزان کو ان جدید اوزان و پیمانوں (جو ہمارے لحاظ سے قدیم ہو چکے ہیں )میں تبدیل کیا اور لوگوں کے لیے سہولت و آسانیاں پیدا فرمادیں ؛ چناں چہ اس مسئلے پر سب سے زیادہ محقق و مفصل رسالہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے ’’اوزانِ شرعیہ‘‘کے نام سے لکھا ہے، جو آپ کے مجموعہ رسائل ’’جواہر الفقہ‘‘ میں شامل ہے اوراس کی بڑے بڑے اکابر علما نے تقریظ کی اور تعریف فرمائی ہے؛ اس رسالے میں حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے بڑی لمبی بحث فرمائی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ صاع کی مقدار، مثقال کے حساب سے تین سیر چھ
------------------------------
(۱) قال: [ نصف صاع ] فاعل یجب [من برأودقیقہ أو سویقہ أو زبیب ] بأن
یعطي نصف صاع دقیق بر أو صاع شعیر یساویان نصف صاع بر وصاع شعیر۔(الدرالمختارمع الشامي:۳/۳۱۸-۳۱۹)
(۲) (الہدایۃ :۲/۲۳۵،نورالإیضاح مع المراقي:۲۶۳،بدائع الصنائع :۲/۵۴۰، مجمع الأنھر: ۱/۳۳۷، فتاویٰ عالمگیری : ۱/۲۱۰،الشامي:۳/۳۱۸، البحرالرائق:۲/۴۴۱، القدوري:۶۱، الاختیار لتعلیل المختار:۱/۱۲۳)