ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں ، لگاسکتے ہو۔(۴)
یہ روایت بھی ضعیف ہے ؛ کیوں کہ اس کاراوی ’’ابوعاتکہ ‘‘جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے،تاہم یہ روایت پہلی روایت کوتقویت دیتی ہے۔ غرض سرمے کے جوازاورغیرمفسد ہونے کی بنیادطبی تحقیقات نہیں ؛ لہٰذا اگر یہ ثابت بھی ہوجائے کہ آنکھ اورجوفِ معدے میں کوئی منفذ ہے، تب بھی سرمے کے غیرمفسد ہونے کے حکم میں کوئی ترمیم نہ کی جائے گی اوریہ حکم برقراررہے گا۔ ہاں ! یہ بھی ذہن میں رہے کہ بعض علما کے نزدیک آنکھ میں سرمہ ڈالنامفسد ہے؛ مگران کے اس قول کی بنیادبھی کوئی طبی تحقیق نہیں ؛ بل کہ بعض اوراحادیث ہیں ، جیسے ابوداود نے روایت کیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایاکہ روزہ دارسرمہ لگانے سے بچے ۔(۱)
مگرخود امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس کومنکرقراردیاہے اورعلامہ البانی نے بھی اس پرتفصیل سے کلام کرکے اس کو’’منکر‘‘قراردیاہے ۔ (۲)
غرض یہ کہ علما نے سرمے کے مفسدہونے نہ ہونے کامدار احایث پررکھاہے، طبی
------------------------------
(۴) عن أنس بن مالک ص قال:جاء رجل إلی النبي صلی اللہ علیہ و سلم ، فقال: اشتکت عیني ، أفأکتحل وأنا صائم؟قال: نعم ۔(الترمذي: ۲/ ۹۷، الرقم،۷۲۶)
(۱) عن عبد الرحمن ابن النعمان عن جد ہ عن النبي صلی اللہ علیہ و سلم أنہٗ أمر بالإثمد المروَّح عند النوم وقال:لِیَتَّقِہِ الصائم۔(ابوداود :۳/۱۵۶،الرقم،۲۳۶۹)
(۲) سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ : ۳/۷۵