ھو خلل البدن ، والمفطر إنما ھوالداخل من المنافذ۔‘‘
p: حلق میں جو (سرمہ )موجود ہے، یہ وہ اثر ہے،جو مساماتِ بدن سے داخل ہواہے اور اس روزے کو وہ چیز توڑتی ہے، جو منفذ سے داخل ہو ۔(۱)
اس سے اتنا معلوم ہوا کہ حضراتِ علما و فقہانے آنکھ اور جوف کے درمیان منفذ نہ ہونے کی بنا پر یہ فیصلہ کیا کہ’’ آنکھ میں سرمہ ڈالنا مفسدِ صوم نہیں ‘‘۔
چناں چہ ’’ہدایہ ‘‘میں ہے :
’’ولو اکتحل لم یفطر ؛ لانہٗ لیس بین العین و الدماغ منفذ۔‘‘
p: اگر سرمہ لگایا، تو روزہ نہیں ٹوٹا؛ کیوں کہ آنکھ اور دماغ کے درمیان راستہ نہیں ۔(۲)
مگر آج کی طبّی تحقیقات نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ آنکھ اور جوف کے درمیان منفذ موجود ہے، اس تحقیق پر یہ مسئلہ کہ’’ آنکھ میں دوا ڈالنا یا سرمہ لگانا روزے کو توڑدیتا ہے یا نہیں ؟‘‘ از سرِ نو زیرِبحث لانے کا محتاج ہوگیا ہے۔
اس سلسلے میں اصولی طور پر دوباتیں ملحوظ ہونی چاہیے :
۱- ایک تو یہ کہ حضراتِ فقہانے جن مسائل کی بنیادِ علم ،تشریح ِاعضا پر رکھی ہے، ان میں انھوں نے اپنے زمانے کے ماہرین و محققین کی تحقیقات پر بھروسہ کیا ہے، انھوں نے خود یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ان تحقیقات کی بنیاد ہمارے علم پر ہے؛ بل کہ بعض جگہ
------------------------------
(۱)الدرالمختارمع الشامي:۳/۳۶۷
(۲) الہدایۃ:۲/۲۵۵