روزہ قضا کرنے کی ضرورت نہیں ؛کیوں کہ مسلمان سے یہی امید ہے کہ اس نے روزے کی نیت کی ہوگی؛ لہٰذا روزہ ہوگیا، اگر چہ وہ بے ہوش تھا؛ اس سے اتنا معلوم ہوگیا کہ ’’بہ جائے خود بے ہوشی سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ‘‘۔
البتہ اس سلسلے میں یہ دیکھنا ہوگا کہ ان حواس کو معطل کردینے والی دواؤں کو کس طرح استعمال کرایا جاتا ہے ،اگر ایسی صورت اختیار کی گئی، جس سے دوا بدن کے اندر جوف میں بہ ذریعے منفذِ اصلی پہنچتی ہو، تو روزہ فاسد ہو جائے گا؛مثلاً ناک کے ذریعے سو نگھائی گئی اور اس کی تیزی دماغ تک پہنچی، توروزہ ٹوٹ جائے گا اور اگر ایسی صورت اختیار کی گئی، جس سے یہ دوا جوف میں نہیں پہنچتی، یا بہ ذریعۂ منفذِ اصلی نہیں پہنچتی، تو روزہ فاسد نہ ہوگا؛ مثلاًانجکشن کے ذریعے یہ دوا دی گئی اور آدمی بے ہوش ہوگیا ،تو روزہ نہیں گیا ۔(۱)
جہاں تک مسئلہ ہے اعضا کو سُند وبے حس کرنے کا، تو اس میں عام طور پر انجکشن کے ذریعے دوائی دی جا تی ہے اور جس حصے کو سند کرنا ہو تا ہے، وہیں یہ انجکشن لگایا جاتاہے، جس سے وہ حصہ کچھ دیر میں بے حس ہو جاتا ہے ، اس کا حکم یہ ہے کہ اس صورت میں بھی روزہ فاسد نہیں ہوتا ؛ کیوں کہ جیسا کہ اوپر انجکشن کے مسئلے میں وضاحت سے عرض کیا گیا ہے ، روزہ اس وقت فاسد ہوتا ہے، جب کوئی مفید چیز
------------------------------
(۱) ’’ المجمع الفقہ الإسلامي،جدہ ‘‘ نے اپنے دسویں سمینار - منعقدہ :۲۳/ ۲۸ ؍ صفر المظفر ۱۴۱۸ھ - میں اس سلسلے میں جو قرارداد منظور کی ہے، اس میں متعدد چیزوں کو غیر مفسد قرار دیا ہے ، ان میں سے ایک یہ لکھا ہے کہ
’’ غازات التخدیر مالم یعطي المریض سوائل (محالیل ) مغذیۃ ‘‘ (مجلۃ المجمع : العدد :۱۰)