’’ومن أغمي علیہ في رمضان ، لم یقض الیوم الذي حدث فیہ الإغماء لوجود الصوم فیہ ، وھو الإمساک المقرون بالنیۃ ‘‘۔
p: جس پر رمضان میں غشی طاری ہوجائے، وہ اس دن کے روزے کی قضا نہ کرے، جس دن کہ اس پر بے ہوشی طاری ہوئی؛ کیوں کہ اس دن کا روزہ پایا گیا اور وہ ہے (کھانے پینے،جماع) سے روکے رہنا نیت کے ساتھ ۔(۱)
’’ الجوہرۃ النیرۃ ‘‘ میں بھی اس کو تقریباً انہی الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔(۲)
اور عالمگیری میں ہے کہ :
’’ ولو أغمي علیہ رمضان کلہٗ ، قضاہ ؛ وإن أغمي علیہ بعد ما غربت الشمس و بقي کذلک أیاماً لم یقض تلک اللیلۃ ؛ لأنہ إن کان یعلم أنہٗ نویٰ الصوم فظاھر، و إن لم یعلم فظاھر حالہ النیۃ۔‘‘ (۳)
اس میں وضاحت ہے کہ جس شخص پر رمضان میں غشی طاری ہوئی، وہ اس دن کی قضانہ کرے، جس دن کہ اس پرغشی طاری ہوی؛کیوں کہ اس کا روزہ ہے؛ البتہ دوسرے دنوں کا روزہ قضا رکھنا ہوگا ؛کیوں کہ ان دنوں بے ہوشی کی وجہ سے اس نے نیت نہیں کی اور بغیر نیت کے روزہ نہیں ہوتا ،’’عالمگیری ‘‘کی عبارت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ افطار کے بعد کسی پر غشی طاری ہوجائے اور اسی حالت پر چند ایام گذر جائیں ، تو پہلے دن کا
------------------------------
(۱) الہدایۃ: ۲/۲۷۳
(۲) الجوہرۃ النیرۃ: ۱/۲۰۹
(۳) عا لمگیری۱/۲۰۸