اور یہ معلوم ہے کہ اس سے بدن کے اندرپانی پہنچتا ہے اور اس سے جسم کے اندر ٹھنڈک پہنچ کر پیاس و گر می ختم ہوجاتی ہے، اس کے باوجود اس کی اجازت فقہا نے دی ہے؛ لہٰذا بہ ضرورت اگر کوئی روزہ دار گلو کوز لے، تو درست ہو گا اور اگر بلاضرورت چڑھائے، تو مکروہ ہوگا ؛کیوں کہ اس میں ایک طرح اس بات کا اظہار ہے کہ وہ روزے سے پریشان ہے اور ایسی کوئی حرکت کرنا، جس سے روزے سے پریشانی و بے چینی ظاہر ہوتی ہو ، فقہا نے لکھا ہے کہ مکروہ ہے؛ اسی لیے امام اعظم رحمہ اللہ نے روزہ دار کے لیے ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے غسل کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے ۔
چناں چہ علامہ شامی اور ابنِ نجیم رحمھما اللہ فرماتے ہیں :
’’وإنما کرہ الإمام رحمہ اللہ الدخول في الماء والتلفف بالثوب المبلول لما فیھا من إظھار الضجر في إقامۃ العبادۃ ، لا لأ نہٗ قریب من الإفطار۔‘‘(۲)
امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے (روزہ دار کے لیے)پانی میں اتر نا اور بھیگے ہوئے کپڑے کو لپیٹنا، اس لیے مکروہ قرار دیا ہے کہ اس میں عبادت سے بے چینی کا اظہار ہے ؛اس لیے نہیں کہ وہ مفسد ہے۔
ظاہر ہے کہ گلو کوز بلا کسی ضرورت کے چڑھا لینا ، اظہارِ بے صبری و بے چینی ہے؛ اس لیے بلا ضرورت یہ مکروہ ہوگا،(واللّٰہ اعلم )۔
------------------------------
(۲) البحر الرائق : ۲ /۴۷۶
قال الشامي:وکرھھا أبو حنیفۃ لما فیھا من إظھار الضجر في العبادۃ ۔
(رد المحتار: ۳/۳۶۷)