اپنی تسکین کرلوں اور آپ کی رہنمائی سے فائدہ اٹھاؤں ، امید کہ آپ بہ ذاتِ خود تکلیف وتوجہ فرماکرجواب مرحمت فرمائیں گے ۔
واقعہ یہ ہے کہ ابھی دیوبندکے دارالعلوم سے انگریزی میں ایک رسالہ رمضان المبارک پر شائع ہواہے ،یہ رسالہ مہتمم جناب قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ کی جانب سے ہے ؛ اس لیے اس کی بڑی اہمیت ہے، اس میں لکھاہے کہ’’ انجکشن لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا،صرف دواستثنا کیے گئے ہیں :
۱- اگرزخم کرکے پانی پیٹ میں لے جایاجائے۔ ۲- براہِ راست دماغ میں دوالے جائی جائے۔ بقیہ انجکشن کوعمومیت کے ساتھ جائز کہاگیاہے؛ اس میں مجھے شبہ گذرتاہے اور خیال ہوتاہے کہ یہ معاملہ مزیدتوجہ کا محتاج ہے ۔
اسی رسالے میں روزے کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ’’ کھانے پینے اورجماع سے صبح صادق سے غروب آفتاب تک پرہیز کرنا‘‘۔ ایک زمانے میں کھا نے کاطریقہ صرف یہ تھا کہ حلق کے راستے سے کھاناپیٹ میں ڈالاجائے اورپینے کابھی یہی طریقہ تھاکہ پانی حلق کے راستے سے پیٹ میں ڈالا جائے؛ مگرسائنس کی ترقی نے نئے نئے طریقے ایجاد کیے ہیں ،انہوں نے دریافت کیاکہ کھاناپیٹ میں جاکرکیاکام دیتاہے ،کھانا معدے میں ہضم ہونے کے بعد اس کاجوہر خون بن کر رگوں میں رواں ہوتاہے ۔
لہٰذا ایسے مریضوں کو،جومنہ سے کھانہیں سکتے،رگوں کے انجکشن کے ذریعے کھاناپہنچایا جاتاہے؛بل کہ براہِ راست خون بھی رگوں میں پہنچادیاجاتاہے اور عرصے تک اسی طرح مریض کووہ جوہررگوں میں پہنچاکر-جوکھانے کامقصد ہے -بلا کھانا کھلائے رکھاجاتاہے۔
اسی طرح پانی پینے کاایک مقصدرگوں کوسیراب کرناہے ، ایک کافی مقدارپانی کی ہرانسانی جسم میں موجودرہنی ضروری ہے اور اگروہ موجود نہ رہے، توانسان