مولانا حکیم الامت اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ‘‘امداد الفتاویٰ ‘‘میں اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے اپنے متعدد فتاویٰ اور رسالہ ’’آلاتِ جدیدہ کے شرعی احکام ‘‘ اور رسالہ ’’کلمۃ القوم في الإنجکشن في الصوم‘‘ میں اسی کو اختیار فرمایا ہے ۔اسی طرح علمائے عرب میں سے اکثر کی رائے یہی ہے ، علامہ شیخ عبد اللہ بن باز ، شیخ العثیمین ، شیخ فوزان رحمہم اللّٰہ وغیرہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ فقہا کے کلام سے مفہوم ہوتا ہے کہ روزہ اس وقت ٹوٹتا ہے، جب صورۃً یا معنی ًافطار پا یا جائے ؛ صورۃً افطار یہ ہے کہ منہ سے کوئی چیز نگل کر جوفِ معدہ میں پہنچائی جائے اور معنی ًافطار یہ ہے کہ جوف میں ایسی چیز پہنچائی جائے، جس میں بدن کے لیے فائدہ و نفع ہو،خواہ وہ غذا ہو یا دوا ہو؛ پھر جوف تک پہنچانے کی شرط یہ ہے کہ منفذِ اصلی کے ذریعے پہنچائی جائے ؛جب یہ باتیں پائی جائیں ، تو روزہ فاسد ہوگا ،ورنہ روزہ باقی رہے گا ،یہ تفصیل کتب ِفقہ میں موجود ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ حضراتِ فقہا کے مطابق روزہ اس وقت فاسد ہو تا ہے، جب کہ روزے کو توڑنے والی چیز، جوفِ معدہ یا جوفِ دماغ میں پہنچے یا پہنچائی جائے اور یہ پہنچنا یا پہنچانا بھی ’’منفذِ اصلی‘‘ کے ذریعے ہو ؛جب یہ دو باتیں پائی جائیں ، تو روزہ فاسد ہوگا ورنہ نہیں ، یعنی اگر روزے کو توڑنے والی چیز جوفِ معدہ یا جوفِ دماغ میں نہیں گئی یا گئی مگر ’’منفذِ اصلی ‘‘کے ذریعے نہیں گئی، تو اس سے روزہ فاسد نہ ہوگا ۔
اس اصول پر غور کریں کہ انجکشن میں صورتِ افطار تو نہیں پائی جاتی ؛کیوں کہ انجکشن میں منہ سے دوا نہیں پہنچائی جاتی؛بل کہ جیسا کہ معلوم ہے رگوں یا گوشت سے دوا داخل کی جاتی ہے ،ہاں ! انجکشن میں معنی ٔ افطار پائے جاتے ہیں ؛کیوں کہ بدن کے لیے فائدہ مند چیز ’’دوا یا غذا ‘‘ جوف میں پہنچائی جاتی ہے ؛مگر اس کی جو شرط ہے کہ