اس کے بعد’’ فتاویٰ ابن تیمیہ‘‘ دیکھا تو ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی ضمناً بحث کرتے ہوئے، اس مسئلے میں تقریباً یہی لکھا ہے ۔(۳)
۳- اس سلسلے میں ایک صورت یہ پیش آتی ہے کہ ایک شخص ایک ملک مثلاً سعودی عرب میں عید کر کے چلا اور دوسرے ملک مثلاً ہندوستان پہنچا، تو یہاں اسی
دن عید ہو رہی ہے، تو کیا کرے ؟ ظاہر یہی ہے کہ یہ شخص یہاں کے لوگوں کے ساتھ عید میں شامل ہو جائے ۔
۴-اس سلسلہ کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ ایک جگہ سے عید کر کے ایک شخص دوسرے علاقے کو پہنچا اور وہاں ابھی عید نہیں ہو ئی تھی؛ بل کہ رمضان ہی چل رہا تھا ، مثلاً : سعودی عرب سے عید کر کے اسی دن ہندوستان یا پاکستان پہنچا اور ہندوستان یا پاکستان میں ابھی انتیسواں ۲۹روزہ تھا ، تو اس شخص کو کیا کرنا چاہیے ؟ روزہ رکھنا چاہیے یا نہیں ؟ اور یہ کہ دوبارہ یہاں کے لوگوں کے ساتھ عید کر نا چاہیے یا نہیں ؟
جواب یہ ہے کہ اس کو اب روزہ رکھنے کی ضرورت نہیں ؛ کیوں کہ اس کے روزے اور عید سب ہو چکے ہیں ، ہاں ! یہاں کے لوگوں کے ساتھ اس کو عید میں شامل ہو جانا چاہیے۔ (۱)
۵- ایک مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص ایک ملک میں رہتے ہوئے انتیس۲۹ روزے رکھا اور انتیس۲۹ کی شام میں اعلان ہوا کہ یہاں چاند نہیں ہوا؛ لہٰذا کل کا روزہ ہوگا ، یہ شخص اسی رات وہاں سے سفر کر کے دوسرے ملک میں پہنچا ،جہاں معلوم ہوا کہ چاند ہو گیا اور صبح عید ہے ، اب یہ شخص کیا کرے ، یہاں کے لوگوں کے ساتھ عید کرے یا پہلے ملک کے حساب سے روزہ رکھے؟ علامہ عثیمین نے جواب لکھا ہے کہ یہ شخص
------------------------------
(۳) مجموعۃ الفتاویٰ: ۲۵ /۱۰۶
(۱) فتاوی الشیخ العثیمین: ۱۹/۷۲