البتہ کمزور افراد کو اس کی برداشت نہ ہوسکے، تو ا ن کے لیے یہ اجازت ہو سکتی ہے کہ وہ دوسرے دنوں میں ، مثلاً سردی کے دنوں میں قضا رکھ لیں ، جیسا کہ مریض لوگوں کواس کی اجازت ہے۔(۱)
دوسرے وہ علاقے، جن کا شروع میں ذکر کیا گیا ہے کہ دن و رات کا مجموعہ کئی کئی مہینوں کا ہو ، ان کا حکم یہ ہے کہ وہاں اندازہ کر کے مہینے کا اور پھر دن و رات کے اوقات کا تعین کر لیں اور اسی اندازے کے مطابق روزے پورے کریں ، علامہ شامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ قال في ’’إمداد الفتاح‘‘ قلت: وکذٰلک یقدر لجمیع الآجال کالصوم و الزکو ٰۃ والحج والعدۃ وآجال بیع السلم و الإجارۃ و ینظر ابتداء الیوم فیقدر کل فصل من الفصول الأربعۃ بحسب ما یکون کل یوم من النقص و الزیادۃ ، کذا في کتب الأئمۃ الشافعیۃ ، و نحن نقول بمثلہ ، إذ أصل التقدیر مقول بہ إجماعاً في الصلوات ‘‘۔(۲)
p: ’’امداد الفتاح‘‘میں لکھا ہے کہ اسی طرح تمام مدتوں کو اندازے سے مقرر کیا جائے گا، جیسے روزہ ، زکاۃ ،حج اور عدت کی مدتیں ، بیعِ
------------------------------
(۱) حضرت تھانوی رحمہ اللہ کارجحان بھی اسی جانب ہے ؛ چناں چہ آپ لکھتے ہیں کہ
’’اورجہاں بہ قدرِتحمل نہ ہو، وہاں اندازہ کرکے عددپوراکریں اوربعدِ ادا اگرایسے ایام مل جائیں ،جس کاتحمل ہوسکے، تواحتیاطاً قضابھی کرلیں اوراگرایسے ایام نہ ملیں ، تووہی اندازے کے روزے کافی ہوجائیں گے‘‘ (امدادالفتاویٰ:۲/۵۰۵ )
(۲) الشامي :۲/۲۳