ضاربہٗ فاسقاً ؛ لأن العاد ۃ أن الموقت یذھب إلیٰ دار الحکم آخر النھار فیعیّن لہٗ وقت ضربہٖ ویعیّنہ أیضاً للوزیر وغیرہ ، وإذا ضربہ یکون ذالک بمراقبۃ الوزیر و أعوانہٖ للوقت المعیّن فیغلب علی الظن بھٰذہ القرائن عدم الخطأ و عدم قصد الفساد ۔‘‘(۱)
p: ہمارے زمانے میں توپ سے ظنِ غالب حاصل ہو جاتا ہے، اگر چہ اس کا اڑانے والا فاسق ہو؛ کیوں کہ توپ کو مقرر کرنے والا(حاکم یا قاضی امیر وغیرہ)دن کے آخر (افطار کے قریب ) دار الحکم جا کر توپ اڑانے والے کو اس کا وقت بتاتا ہے اور پھر اس کے لیے وزیر وغیرہ کو بھی مقرر کرتا ہے اور جب وہ اڑاتا ہے، تو یہ وزیر اور اس کے اعوان و انصار کے سامنے ہوتا ہے اور وقت ِ مقررہ پر ہوتاہے،پس ان قرائن سے ظنِ غالب حاصل ہوتا ہے کہ یہاں خطاو غلطی یا فساد کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔
اس میں علامہ شامی رحمہ اللہ جن قرائن کی بنیاد پر اس زمانے کے توپ سے غلبۂ ظن کا حاصل ہوجا نا مان کر ،اس پر افطار کی اجازت دے رہے ہیں ، ان سے ہم بھی استفادہ کر سکتے ہیں ،سائرن میں بھی اور دیگر اس طرح کی چیزوں میں بھی ۔
۱- ایک شرط تو یہ ہے کہ کسی اچھے دین دار آدمی کی طرف سے اس کا انتظام ہو، اگر چہ بجانے والا دین دار نہ ہو۔
۲-دوسرے یہ کہ ہمیں یہ معلوم ہو کہ اس کامنتظم کسی کو اس کے بجانے پر مقرر کیا ہوا ہے ۔
۳- تیسرے یہ کہ اس کے لیے وقت ِمقررہ پر بجانے کی شرط ہو۔
------------------------------
(۱) الدر المختار مع الشامي :۳/۳۸۳