حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ نے اولاً بعض شرائط کے ساتھ تارکی خبر کومعتبر قراردیاتھا، پھربعض ناگفتہ بہٖ حالات کے سامنے آنے پرایک فتویٰ مرقومہ ۱۳۲۷ھ میں اس سے رجوع فرماکر،اس کومطلقاً ناقابلِ اعتبارقراردیا،پھرایک اور فتوے میں ، جو اس رجوع کے دوسال بعد ۱۳۲۹ھ میں لکھا ہے،بعض شرائط کے ساتھ تارکی خبرکومعتبرقراردیاہے۔ اس فتویٰ سے اوردیگر علما کے فتاویٰ سے جوشرائط کی تفصیل حاصل ہوئی ہے ، اس کومیں اپنے الفاظ میں مرتب کرکے پیش کرتاہوں :
تارکی خبر اس وقت معتبرہوگی؛ جب کہ تار دہندہ شناسا ہو اور معتبر وثقہ ہو۔ (۲)
رمضان کے چاندکی خبر بہ ذریعے تارآئے اورمطلع صاف نہ ہو،بل کہ ابرآلودہو،تو اگرقرائن سے اس کامصداق معلوم ہوجائے، تو اس کااعتبار ہوگا ۔ (۱)
عید کے چاند کی خبراگرتارسے آئے، تومطلع صاف ہونے کی صورت میں اس کااعتبارنہ ہوگا،اگرصرف دوتین تارہیں اوراگرتار زیادہ ہیں ، مثلاً آٹھ دس ہیں اور ان سے ظنِ غالب حاصل ہوجائے؛ تو ان کااعتبارکرکے عید کرسکتے ہیں ۔(۲)
اوراگرمطلع صاف نہ ہو، توعید کے چاند کے لیے دوتین معتبر شناسا لوگوں کے تاروں کااعتبار کیاجاسکتاہے، جب کہ ظنِ غالب حاصل ہو جا ئے ۔ (۳)
اوراگرمتعدد جگہوں سے مختلف معتبر لوگوں کے تار آئے کہ میں نے چانددیکھا
------------------------------
(۲) امدادالفتاوی:۲/۹۶
(۱) عزیز الفتاویٰ : 372 فتاویٰ دار العلوم : 376/2 فتاویٰ باقیات : 100
(۲) امدادالفتاوی:۲/۹۶
(۳) امدادالفتاوی:۲/۹۶