لیے غسل اورجمعہ کے لیے غسل کوممکن ہے کہ حاجتِ طبعیہ میں داخل سمجھ کراس کے لیے مسجد سے نکلنے کی گنجائش نکالیں ، اس لیے اس کویہاں ذکرکرناپڑا۔
سومعلوم ہوناچاہیے کہ گرمی کاغسل حاجت ِطبعیہ میں بھی داخل نہیں ہے؛کیوں کہ حضراتِ فقہا نے حاجتِ طبعیہ کی تعریف یہ کی ہے کہ
’’ الطبیعیۃ ما لابدمنھا وما لا یقضی في المسجد ‘‘۔
p: حاجت ِطبعیہ وہ ہے ،جس کے بغیر چارہ نہ ہواوراس کومسجد میں پورانہ کیاجاسکتاہو۔(۱)
اورظاہرہے کہ گرمی کاغسل ایسی چیزنہیں ہے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو؛بل کہ گرمی سے بچنے کے لیے اورٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے اوربھی طریقے ہیں ، مثلاً :پنکھاکرنا،بھیگاہواکپڑا سریابدن پرڈال لیناوغیرہ؛اس لیے علما نے ٹھنڈک کے لیے غسل کوحاجتِ طبعیہ میں داخل نہیں فرمایا ،چناں چہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے ’’امدادالفتاوی‘‘ میں غسلِ تبریدکے لیے باہرنکلنے کومفسدقراردیاہے۔(۲)
اس لیے ایسانہ کرنا چاہیے اوریہی حال ہے جمعہ کے غسل کا ،کہ وہ حاجتِ طبعیہ میں بھی داخل نہیں ؛ لہٰذا ا س کے لیے مسجد سے نکلنا مفسدِ اعتکاف ہے ۔
البتہ اگرگرمی کے دنوں میں اعتکاف کاموقعہ آئے اوروہ پہلے ہی نیت کرلے کہ میں گرمی کے غسل کے لیے نکلوں گا،تواس کے لیے نکلنے کی گنجائش ہوسکتی ہے ، جیسے
------------------------------
(۱) الشامي:۳/۴۳۵
(۲) چناں چہ سوال ہواکہ :گرمی کی وجہ سے غسل خانے میں جاکر روزانہ نہاناجائزہے ؟
الجواب:نہیں ۔ سوال: اگربہ وجہ ناواقفیت کے نہایاہو،تواس کا اعتکاف ہوا یانہیں ؟
الجواب:جتنے دن ایساکیاہے، اتنے دن کے اعتکاف کی قضاکرے۔
(امدادالفتاوی:۲/۱۵۳-۱۵۴)