کی اجازت دی ہے؛ حتی کہ اگر راستے میں کسی عزیز دوست کاگھرہو،تب بھی اپنے گھرجانے کی اجازت دی ہے ۔(۱)
لیکن یہ اس وقت کی بات ہے ،جب کہ مسجدوں سے متصل آج کل کی طرح بیت الخلا کا انتطام نہ تھا ،ا ب جب کہ تقریباً شہر کی ہر مسجد سے ملے ہوئے بیت الخلا بنے ہوئے ہیں اورپانی کابھی معقول انتظام ہوتاہے ،یہ سوال پیداہوتاہے کہ معتکف مسجد کے بیت الخلا کوچھوڑکر قضائے حاجت کے لیے اپنے گھرجاسکتاہے یانہیں ؟
اس سے پہلے کہ اس کاحکم معلوم کریں ،یہ ذہن میں رکھناچاہیے کہ فقہانے لکھاہے کہ اگرکسی آدمی کے دوگھرہوں ، ایک دورہواور ایک قریب اوریہ آدمی اعتکاف میں قریب کے گھرکوچھوڑکردورکے گھرکوجائے، توبعض علما کے نزدیک اس کااعتکاف فاسدہوجا ئے گا اوربعض کے نزدیک فاسدنہ ہوگا۔(۲)
علامہ شامی رحمہ اللہ نے’’ النہرالفائق ‘‘کے حوالے سے نقل کیاہے کہ اس صورت پرزیرِبحث مسجدکے بیت الخلاچھوڑکر گھرجانے کی صورت کوقیاس کرنا چاہیے؛ لہٰذا بعض کے نزدیک اس میں بھی اعتکاف فاسد ہوجائے گااوربعض کے نزدیک فاسد نہ ہوگا،مگرآگے چل کرعلامہ شامی رحمہ اللہ نے ’’رحمتي‘‘ کے
------------------------------
(۱) قال: ولوکان بقرب المسجد بیت صدیق لہٗ ، لم یلزم قضاء الحاجۃ فیہ ۔
( عالمگیری:۱/۲۳۳)
(۲) قال: واختلف فیما لو کان لہ بیتان فأتیٰ البعید منھما ،قیل : فسد، وقیل: لا ( الشامي: ۳/۴۳۵) قال:وإن کان لہ بیتان قریب وبعید فقال بعضھم : لایجوز أن یمضي إلی البعید، فإن مضي بطل اعتکافہ۔ (عالمگیری:۱/۲۳۳)