رکھنا کوئی بھلائی کاکام نہیں ۔(۲)
اورابوداؤد میں ہے کہ
حضرت حمزہ اسلمی نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیاکہ میں ہمیشہ سفرمیں رہتاہوں ؛ مگرمیرے میں قوت وطاقت ہے، تورمضان میں میں روزہ رکھوں یانہ رکھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جیسی مرضی ہوویساکرلینا‘‘۔(۳)
پہلی حدیث سے سفرمیں ’’روزے کاافضل ہونا ‘‘،دوسری سے’’ ترکِ روزے کاافضل ہونا‘‘اورتیسری سے’’ دونوں باتوں میں اختیارہونامعلوم ہوا‘‘۔ علما وفقہا نے ان روایات میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ جس کوبرداشت کی قوت ہو،اس کے لیے سفرمیں روزہ افضل ہے اورجس کے لیے کلفت کاسبب ہو،اس کے لیے ترکِ روزہ افضل ہے ،جہاں مشقت متحقق نہ ہو،وہاں اختیار ہے ۔(۱)
------------------------------
(۲) عن جابربن عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ قال :کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و سلم في سفر فرأی زِحاماً ورجلاً قد ظلل علیہ ، فقال : ما ھذ ا ؟ قالوا: صائم ، فقال :لیس من البر الصوم في السفر۔
(البخاري:۳۶۹،الرقم:۱۹۴۶،المسلم:۴۳۲،الرقم:۱۱۱۵،الترمذي:۲/۸۲،الرقم:۷۱۰، أبوداود: ۲۷۳ ، الرقم،۲۴۰۷،ابن ماجۃ: ۳/ ۱۶۳،الرقم،۱۶۶۴)
(۳) عن حمزۃ الأسلمي قال قلت : یا رسول اللّٰہ ، إني صاحب ظھر أعالجہ أسافرعلیہ و أکریہ و إنہ ربما صادفني ھذا الشھر یعني رمضان وأنا أجد القوۃ و أنا شاب وأجد بأن أصوم یارسول اللّٰہ أھون علي من أن اُؤَخِّرہ فیکون دیناً أفأصوم یارسول اللّٰہ أعظم أجري أو أفطر ؟، قال: أي ذٰلک شئت یا حمزۃ!۔ (أبوداود:۲۷۳،الرقم:۲۴۰۳)
(۱) الترمذي:۲/۸۲،فتح الباري:۵/۳۳۳-۳۳۴،عمدۃ القار ي: ۱۱/۶۲