نیزعالمگیری میں ہے کہ یہی قول’’ ظاہر الروایۃ ‘‘ہے ۔(۲)
اور اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح ِمکہ کے موقعے پر درمیانِ سفر میں مقامِ عرج پر روزے کی حالت میں پیاس یا سخت گرمی کی وجہ سے، اپنے سر پر پانی ڈالا تھا، اس کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔(۳)
نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ وہ روزے کی حالت میں کپڑا تر کر کے لپیٹ لیا کرتے تھے ۔(۴)
مگرامام ابوحنیفہ T نے روزے کی حالت میں اس سے منع فرمایاہے؛ کیوں کہ اس سے بے صبری اوربے چینی کامظاہرہ ہوتاہے،جواچھی بات نہیں ۔ (۱)
------------------------------
(۲) وکرہ الاغتسال وصب الماء علی الرأس والاستنقاع في الماء و التلفف بالثوب المبلول۔ وقال أبویوسف:لا یکرہ وھو الأظھرکذ ا في محیط السرخسي ۔
(عالمگیری :۱/۲۲۰)
(۳) قال أبوبکر: قال الذي حدثني: لقد رأیت رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و سلم بالعرج یصب علی رأسہٖ الماء وھو صائم من العطش أو من الحر۔
(أبوداود بتحقیق عوامۃ: ۳/۱۵۲،الرقم،۲۳۵۷،السنن الکبریٰ للنسائي:۳/۲۸۸، الرقم: ۳۰۱۷،السنن الکبریٰ للبیہقي :۴/۴۳۸،الرقم،۸۲۶۱)
(۴) عن عبد اللّٰہ بن أبي عثمان قال :رأیت ابن عمر رضی اللہ عنہ وھو صائم ، یبل الثوب ثم یلقہ علیہ ، وکذا یفعلہ عثمان بن أبي العاص وعبدالرحمن بن الأسود و غیرھم۔(المصنف لابن أبي شیبۃ: ۶/۱۸۶-۱۸۷)
(۱) قال : وکرھھا أبوحنیفۃ لما فیھا من إظھار الضجرفي العبادۃ ۔
(الشامي:۳/۴۰۰،مراقی الفلاح:۲۴۹، خانیۃ علی ہامش الھندیۃ:۱/۲۰۵)