بیماری بھی ہے، جو روزہ رکھنے سیکیفاً یا کماً بڑھ جانے والی ہو ؛ مگر اس صورت میں روزہ ترک کردینا،اس وقت جائز ہوتا ہے؛ جب کہ کسی مسلمان متقی ڈاکٹر نے ترکِ روزے کا مشورہ و حکم دیا ہو، جیسا کہ’’ در مختارمیں ‘‘لکھا ہے کہ وہ ڈاکٹر حاذق، مسلم اور کم از کم عدل نہ ہو، تو مستور ہو کہ فسق ظاہر نہ ہو۔(۱)
لیکن موجودہ دور میں چوں کہ ڈاکٹر زیادہ تر غیر مسلم یا فاسق ہی ملتے ہیں ؛اس لیے یہ بھی سوال کیا جاتا ہے کہ کیا ایسے حالات میں بھی مسلم و عدل کی قید و شرط لگائی جائے گی، یا غیر مسلم وغیر عدل کے قول پر بھی ترکِ روزے میں اعتماد کیا جا سکتا ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ دورِ حاضر میں اگر چہ فسق ظاہر ہے اور عادل و با شرع ڈاکٹروں کا ملنا مشکل ہے؛ مگر ناپید و معدوم نہیں ؛ اس لیے ایسی صورت میں احتیاط اسی میں ہے کہ تلاش و جستجو سے کام لے کر با شرع ڈاکٹروں سے مشورہ کیا جائے؛ البتہ اگر کوئی ایسی جگہ ہے، جہاں ایسے ڈاکٹر میسر ہی نہ ہوں ، تو وہاں غیر مسلم و غیر عدل ڈاکٹر کے قول پر بھی اعتماد کیا جا سکتا ہے؛ جب کہ وہ اسلام کا احترام کرنے والاہو ،جیسے بعض دیگر صورتوں میں بھی علما نے غیر مسلم ڈاکٹر کے قول پر مجبوری میں عمل کرنے کی اجازت
------------------------------
(۱) وفي الدر: [أو لمریض خاف الزیادۃ] …بإخبارطبیب حاذق مسلم مستور [الفطر]۔ (الدرالمختار مع الشامي: ۳/۴۰۳-۴۰۴)
وفي البحر : [لمن خاف زیادۃ المرض]بإخبار طبیب حاذق مسلم غیر ظاہر الفسق [الفطر]۔ (البحر الرائق :۲/۴۹۲)
وفي المراقي: لمن خاف زیادۃ المرض بإخبار طبیب مسلم حاذق عدل بداء وقال الکمال : مسلم، حاذق، غیر ظاہر الفسق، جاز الفطر۔ (مراقي الفلاح :۲۵۱)