………………………………………………………
اس لیے مناسب ہے کہ اس مسئلے کی بابت حضرت اقدس کی تحریرکردہ، وہ مفصل تحقیق نذرِقارئین کردی جائے،جوآپ کے عظیم فقہی وتحقیقی مقالات کے مجموعہ بہ نام ’’نفائس الفقہ ‘‘ میں درج ہے، اس سے متعلقہ مسئلے کامناطِ حکم بھی اورآپ کانقطۂ نظربھی واضح ہوجائے گا؛ چناں چہ آپ رقم طرازہیں کہ
’’ تنفس کی بیماری کے علاج کے لیے ’’ انہیلر‘‘ کااستعمال درست نہیں ، اس سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے؛کیوں کہ اس سے ایک دوا (بہ صورتِ سفوف جیساکہ سوال میں ہے یا بہ صورتِ سیال چیزجیساکہ بعض کاکہناہے)ہواکے ذریعے اندرپہنچائی جاتی ہے اوریہ اگرچہ ڈاکٹروں کے مطابق پھیپڑوں میں پہنچتی ہے،معدے میں نہیں ؛مگریہ بات یقینی ہے کہ اس کواسی راستے سے پہنچایا جاتاہے، جس سے کہ معدے کی طرف بھی راستہ جاتاہے اورمعدے میں اس کے پہنچنے سے کوئی مانع بھی موجودنہیں ہوتا،اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس کے کچھ اجزا کاپھیپڑوں کے بہ جائے معدے میں چلاجاناعین ممکن ہے؛ لہٰذااحتیاط اسی میں ہے کہ اس سے روزے کوفاسد قرار دیاجائے ،وجہ یہ ہے کہ خود فقہائے کرام نے لکھاہے کہ
’’إن السبب یقوم مقام المسبب في موضع الاحتیاط ‘‘۔
(بدائع الصنائع:۱/۱۴۶،۲/۳۳۱)
اوریہاں دواکابہ ذریعے ’’انہیلر‘‘پھیپڑوں میں پہنچانا سبب ہے معدے میں پہنچنے کا؛ لہٰذا اس کوبھی مسبب کے درجے میں مان کرروزے کے لیے اس کومفسد قراردینا چاہیے ۔
اوراسی اصول پرفقہا کے کلام میں احتیاطاً وجوب کی کئی نظیریں ملتی ہیں ،مثلاً:
(۱)نوم کاناقض ِوضوہونااسی سبب سے ہے کہ یہ سبب ہے استرخائے مفاصل کااوروہ سبب ہے خروجِ ریح کا،جوحَدَث ہے ؛ لہٰذا اس سبب کو مسبب کے قائم قراردے کراس …………