نیز حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت عکرمہ و ابراھیم نخعی سے بھی ایسا ہی مروی ہے ۔ (۲)
نیز جمہور علما کا مذہب یہ ہے کہ پچھنا لگوانا روزے کو فاسد نہیں کرتا۔(۳)
لہٰذا خون نکالنے سے روزہ فاسد نہ ہوگا؛ لیکن یہ سوال کہ بہ جائے خود روزہ دار کو ایسا کرنا درست ہے یا نہیں ؟ قابلِ غور ہے ۔
اگر بہ ضرورت ایسا کرنا پڑے، مثلاً کسی بیما ر کے لیے فوری ضرورت پڑجائے اور یہ خون دے دے، تو اجازت معلوم ہوتی ہے ،جیسے علما نے پچھنا لگوانے کی اجازت دی ہے ۔(۴ )
اور اگر بلا ضرورت کیا جائے، تو کراہت سے خالی نہیں ؛کیوں کہ اس سے بدن میں ضعف اور کمزوری پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اور روزہ دار کو ایسا کام کرنا، جس سے کمزوری اور ضعف پیدا ہونے کا اندیشہ ہو ،مکروہ ہے۔ (۵)
اور’’ عالمگیری ‘‘میں لکھا ہے کہ اپنے اوپر اطمینان ہو،تو خون نکالنے میں مضائقہ نہیں ؛ ورنہ مکروہ ہے اور کراہت اس وقت ہے کہ ایسا ضعف ہونے کا اندیشہ ہو کہ روزہ توڑنا پڑے ۔(۱)
------------------------------
(۲) دیکھو: فتح الباري :۵/۳۲۶
(۳) قال الحافظ: وأما الحجامۃ فالجمہور أیضاً علی عدم الفطر بھا مطلقاً۔
(فتح الباری:۵/۳۲۵)
(۴) الدرالمختار مع الشامي: ۲/۴۱۹
(۵) الدرالمختار مع الشامي : ۲/ ۴۲۰ ،البحر الرائق : ۲/ ۲۷۳
(۱) ولابأس بالحجامۃ إن أمن علیٰ نفسہ الضعف ؛ أما إذا خاف فإنہ یکرہ …وذکرشیخ الإسلام: شرط الکراھۃ ضعف یحتاج فیہ إلی الفطر ۔
(فتاویٰ عالمگیری: ۱/۲۲۰)