تکمیل تک قیدخانہ میں رکھ سکتے ہیں،خواہ یہ زمانۂ قید اس مدت سے زائد ہو، جو اس (قیدی) کے اوپر عائد فردِ جرم کی اصل سزاہے۔(۳۵)
۹- اولاً ملزم کی دو قسمیں ہیں : معروف الحال اور مجہول الحال، پھر معروف الحال کی دو قسمیں ہیں : معروف بالصلاح والتقوی ا ور معروف بالفسق والفجور۔
اگر قیدی معروف بالصلاح والتقوی ہے، تو اسے محض تہمت کی وجہ سے قید خانہ میں رکھ کر ذہنی اذیت دینا یہ اعتدا اور ظلم ہے (۳۶)،اور ظلم وزیادتی کی صورت میں ہرجانہ طلب کرنااس وقت درست ہوتاہے، جب کہ اعتدا اورظلم کا تعلق عین سے ہو،جب کہ ذہنی اذیت کا تعلق عین سے نہیں، اس لیے مالی ہرجانہ طلب کرنا صحیح نہیں ہونا چاہیے۔(۳۷)
۱۰- زیرِ سماعت قیدیوں کو قانونی صلاح ومشورہ کا حق حاصل ہے ، جو قیدی وکیلوں کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں، انہیں اپنے وکیلوں تک رسائی ملنی چاہیے ، اور جو ایسا نہیں کرسکتے ان کے لیے قانونی نمائندگی کا بندوبست ریاست پر لازم ہوناچاہیے، کیوں کہ جو قیدی ثبوتِ جرم فراہم ہوئے بغیر قید خانہ میں رکھے گئے ہیں، وہ مظلوم ہیں(۳۸)،اوردفعِ ظلم ہر ایک کا اپنا حق ہے(۳۹)،اگر وہ قانونی چارہ جوئی کے ذریعے اپنے اس حق کو حاصل کرنا چاہیں، تو انہیں اس کا حق حاصل ہوگا، اور جو اس حق کو حاصل کرنے سے عاجزہیں، انہیں ان کا حق دلانا ریاست کا فرض ہے۔(۴۰)
۱۱- خواتین قیدیوں کو اپنے شیرخوار بچو ں کو جیل میں رکھنے کاحق حاصل ہے، کیوں کہ ماں اور ولد کو جدا کرنے سے ولد کے ہلا ک ہونے کااندیشہ ہے(۴۱)، نیز شریعت نے ماں اور ولد کو جداکرنے سے منع فرمایا ہے(۴۲)، لہٰذا حکومت کو زمانۂ حبس میں شیر خوار