مقالہ
(۲۰؍ واں فقہی سمینار [رام پور، یوپی] ۲۹؍ ربیع الاول - ۱؍ ربیع الثانی/ مطابق:۵-۷ ؍مارچ ۲۰۱۱ء)
(۱)تفریح کے ذرائع اور اُن کا استعمال
سوال: ۱- تفریح کا ایک طریقہ مزاح اور لطیفہ گوئی ہے، مزاح نثر میں بھی ہوتا ہے، اور نظم میں بھی، آج کل بعض پیشہ ور لطیفہ گو بھی ہوا کرتے ہیں، اور مزاح کے لیے مستقل مجلس یا مزاحیہ مشاعرہ بھی منعقد کیا جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ:
[الف]: کیا شریعت میں مزاح جائز ہے ، اور جائز ہے تو اس کی حدود کیا ہیں؟
جواب: [الف]:- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ہم مسلمانوں کے لیے زندگی کے ہر موڈ پر ایک کامل آئیڈیل ونمونہ ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں راتوں کی تاریکیوں اور خلوتوں میں اپنے رب ذوالجلال کے سامنے اتنا لمبا قیام فرمایا کرتے تھے، کہ قدمہائے مبارک پر ورم آجایا کرتا تھا، وہیں آپ جلوتوںمیں طیبات کو پسند بھی فرماتے تھے، بسا اوقات فرحت وبشاشت کا اظہار بھی کردیا کرتے، اور کبھی کبھی دل لگی ومزاق بھی فرماتے تھے، جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’شمائل‘‘ میں اس حدیث کی تخریج فرمائی ہے کہ: ’’ایک بوڑھی عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور کہنے لگیں: اے اللہ کے رسول-صلی اللہ علیہ وسلم-! آپ میرے لیے دعا کردیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت داخل فرمادے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے