اصلاح وفلاح ،اور معاشرہ میں شریفانہ زندگی گذارنے کا اہل بنانے کے وسیع مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے،عالمی معیار نے یہ طے کردیا ہے کہ پوری دنیا سے ان کے ربط کو ختم نہیںکرنا چاہیے، اس لیے قیدیوں کو یہ عام سماجی حقوق حاصل ہوں گے، اور انہیں ان حقوق کا حاصل ہونا،قیدیوں کے سلسلے میں نظریۂ شرعِ اسلامی کے خلاف بھی نہیں ہیں، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’استوصوا بہم خیرًا ‘‘، جس سے مفہوم ہوتاہے کہ قیدی ہر طرح کے خیر کے مستحق ہیں۔ (۲۳)
اخلاقی امور
(د): مردوں اور عورتوں کے لیے، اسی طرح بالغوں اورنابالغوں کے لیے الگ الگ قیدخانے ہونا، نہ صرف قیدیوں کے حقوق میں داخل ہیں، بلکہ ریاست پر اس کا انتظام لازم وضروری ہے(۲۴)،کیوں کہ ان سب کو ایک جگہ رکھنا مفاسد اور خرابیوں کا سبب ہے۔ (۲۵)
۳- (الف؍ب؍ج؍د؍ھ؍و) قیدیوں سے سچی بات اگلوانے کے لیے سخت ٹھنڈک میں برف کی سلوں پر ڈال دینا،ان کو بے لباس کر دینا، انہیں مسلسل جگہ رہنے پر مجبور کرنا، مارپیٹ کرنا ، الکٹرک شاک لگانا،ان پر کتے چھوڑنا،یہ سب افعال غیر انسانی ،غیر اخلاقی اور ظلم وزیادتی پر مبنی ہو نے کی وجہ سے غیر شرعی اور حرام ہیں(۲۶)،اگرقیدی اس طرح کی سزاؤں کے نتیجے میں اقبالِ جرم کریں،تو شرعاً وہ معتبر نہیں ہوگا، او رنہ اسے بنیاد بنا کر سزاؤں کا فیصلہ کرنا صحیح ہوگا۔(۲۷)
۴- عام حالات میں قیدیوں کو زنجیروں میں جکڑنا، ہتھکڑی پہنانا اور بیڑی ڈالنا