مقالہ
(۱۹؍ واں فقہی سمینار[ہانسوٹ،گجرات]،بتاریخ:۲۷-۳۰؍صفر المظفر ۱۴۳۱ھ/مطابق :۱۲ -۱۵؍فروری ۲۰۱۰ء)
سونے اور چاندی کا نصاب
سوال:۱- یہ بات ظاہر ہے کہ سونا اور چاندی کا نصاب منصوص ہے، اگر کوئی شخص سونے یا چاندی کی مقررہ مقدار کا مالک ہوجائے، تو اس پر اس مال کی زکوۃ واجب ہوجائے گی، لیکن سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں اگر کسی شخص کے پاس نقد روپئے یا سامانِ تجارت ہو، تو زکوۃ واجب ہونے کے لیے پیمانہ سونے کا نصاب ہوگا، یا چاندی کا نصاب؟ یعنی اگر کسی شخص کے پاس مثلاً اتنی نقد رقم ہو، جس سے نصاب کے بقدر چاندی تو خرید کی جاسکتی ہے، لیکن نصاب کے بقدر سونا خریدا نہیں جاسکتاہو، تو ایسے شخص پر زکوۃ واجب ہوگی یا نہیں؟ اسی طرح اگر کسی شخص کے پاس نقد رقم مالِ تجارت یا اموالِ زکوۃ کے علاوہ کوئی مال چاندی کے نصاب کی قیمت کا موجودہو، مگر وہ سونے کے نصاب کی قیمت کو نہیں پہنچتا ہو، تو اس کے لیے زکوۃ لینا جائز ہوگا یا حرام؟
جواب:۱- سونا اور چاندی دونوں کا نصاب منصوص ہے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ چاندی کے نصاب سے متعلق نصوص زیادہ ہیں،اور وہ قوت میں بھی فائق ہیں، یہی وجہ ہے کہ چاندی کا نصاب متفق علیہ ہے ، جب کہ سونے کے نصاب کی بابت کچھ اختلاف رہا ہے، بلکہ مشہور تابعی حضرت عطاء رحمہ اللہ کا بیان تو یہ ہے کہ عہد نبوت میں