بیعِ تورّق کا شرعی حکم
سوال: عام بینک ضرورت مندوں کو سود پر قرض فراہم کرتے ہیں، یہ قرض بعض دفعہ معاشی مقاصد یا ایسی ضروریات کے لیے، لیے جاتے ہیں، جن میں مقروض کا مقصد کسی سامان کا حصول ہوتا ہے، جیسے کارخانہ کے لیے مشینیں، رہائشی ضرورت کے لیے گھر وغیرہ، اور بعض دفعہ قرض طلب کرنے والے کو نقد رقم کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے ملازمین کے لیے تن خواہیں علاج کے لیے ہسپتال کی فیس وغیرہ۔
اسلامی مالیاتی ادارے پہلی قسم کی مطلوبہ رقم کے لیے مضاربت، شرکت اور زیادہ تر مرابحہ یااجارہ کا طریقہ استعمال کرتے ہیں، یعنی ضرورت مند شخص اگر کاروبار کے لیے رقم لینا چاہتاہے، تو اسے پارٹنر بنالیتے ہیں، یا بینک خود مطلوبہ اشیاء خرید کرکے ضرورت مند شخص کو زیادہ قیمت پر فروخت کردیتا ہے، اور اگر وہ شئے کرایہ پر لگائی جاسکتی ہو، تو وہ بعض اوقات کرایہ پر لگادیتا ہے، لیکن دشواری اس وقت پیش آتی ہے، جب ضرورت مند شخص کو نقد روپیوں کی ضرورت ہو، کیوں کہ اگر نقد رقم پر نفع لیا جائے، تو ظاہر ہے کہ یہ ربا ہوجائے گا۔…اس کے لیے اسلامی بینکوں نے ایک طریقہ ’’تورُّق‘‘ کا اختیار کیاہے، جس میں بینک خریدار سے کوئی ایسی شئے فروخت کرتا ہے، جس کو بیچ کر ضرورت مند مطلوبہ رقم حاصل کرسکتا ہے، عملی طور پر اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلاً: ’’الف‘‘ کو ایک لاکھ روپئے کی ضرورت ہو، تو ضرورت مند بینک سے ایک لاکھ دس ہزار روپئے کا لوہا اُدھار خرید کرتا ہے، اور اسے ’’ب‘‘ سے ایک لاکھ روپئے نقد میں فروخت کردیتا ہے، اس طرح ’’الف‘‘ کو ایک لاکھ روپئے کی رقم حاصل ہوجاتی