۲- ایسی تصویر بنائی جائے جو مقطوع الرأس ہو،یا موضعِ سر پر دائرہ یا اس کے مشابہ کوئی نشان وغیرہ لگایا جائے، تاکہ چہرے کے نشانات وعلامات مٹ جائیں، یا وہ تصویر انسان وحیوان کی ہیئت پر نہ بنائی گئی ہو، تو اس طرح کے کارٹونس بنانے میں کوئی حرج ومضائقہ نہیں ہے، کیوں کہ حضرت عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ إنما الصورۃ الرأس ، فإذا قطع فلا بأس ‘‘کہ اصل تصویر سر ہے، جب سر کو قطع کردیا جائے تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔
(المصنف لإبن أبي شیبۃ:۱۲/۶۳۷، رقم : ۲۵۸۰۸، ط : المجلس العلمي أفریقیۃ)
[الف؍ب]: کارٹون کی مذکورہ تقسیم سے سوال نامہ میں مذکور شق (الف وب) کا جواب معلوم ہوجاتا ہے، کہ اگر کارٹون ذوی الارواح کی ہیئت پر ہے، تو اس کا بنانا جائز نہیں ہے، اور اس کا شماربھی ممنوع تصویر سازی میں ہوگا۔نیز ذوی الارواح کا کارٹون بنانا اور اس کو ذریعۂ آمدنی بنانا، اور اس مقصد کے لیے ملازمت کرنا بھی شرعاً جائز اور درست نہیں ہوگا۔
(۶) ڈرامہ
سوال:۶- جیسے کہانیاں لکھی جاتی ہیں، اور فرضی حکایتیں مرتب کی جاتی ہیں، اسی طرح ذہنی تفریح کا ایک ذریعہ ڈراما بھی ہے، جس میں مختلف افراد بطورِ کردار کے شامل ہوتے ہیں، اور وہ متعین جملوں کو ادا کرتے ہیں، آج کل دینی مدارس کے پروگراموں میں بھی مکالمات کی صورت مروج ہوگئی ہے، یہ بھی اس میں شامل ہے، ڈرامہ غیر اخلاقی مقاصد کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے، اور بہتر مقاصد کے لیے بھی، لیکن اس میں جو کچھ کہا جاتا ہے، یا ڈرامہ میں شامل مختلف لوگوں کے درمیان جو رشتے ظاہر کیے