نکاح کو توڑنے اور فسخ کرنے کا طریقہ وہ نہیں رکھا ، جوعام خرید وفروخت کے معاملات اور معاہدات کا ہے ، کہ ایک مرتبہ معاہدہ فسخ کردیا، تو اسی وقت اسی منٹ فریقین آزاد ہوگئے، اور پہلا معاملہ بالکل ختم ہوگیا، اور ہر ایک کو اختیار ہوگیا کہ دوسرے سے معاہدہ کرلے ، بلکہ معاملۂ نکاح کو بالکل قطع کرنے کے لیے اول تو اس کے تین درجے تین طلاقوں کی صورت میں رکھے گئے ، پھر اس پر عدت کی پابندی لگادی گئی‘‘۔ (معارف القرآن:۱/۵۵۷)
طلاق کاشرعی طریقہ
(۱) طلاق کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ شوہر اپنی مدخولہ بیوی کو ایسے طہر کی حالت میں جس میں اس سے صحبت نہ کی ہو، ایک طلاقِ رجعی دے ، یعنی یوں کہہ دے کہ’’ میں نے تجھے ایک طلاقِ رجعی دی ‘‘،اور اس کو چھوڑدے یعنی دوسری طلاق نہ دے ، یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے ،اس طلاق کو طلاقِ احسن کہتے ہیں،کیوں کہ اگر شوہر کو اپنے فعلِ طلاق پر ندامت ہوتو وہ تدارک پر قادر ہوگا، یعنی اگر عدت کے اندر رجوع کرنا چاہے تو رجوع کرسکتا ہے ، اور اگر عدت گزرگئی اور دوبارہ نکاح کرنا چاہے، تو بلا حلالہ نکاحِ جدید کرسکتا ہے۔
طلاقِ رجعی میں عدت کے اندر رجوع کرنے کے لیے نہ تجدیدِ نکاح کی ضرورت ہے، نہ ہی عورت کی رضامندی ضروری ہے، نہ عدت میں ترکِ زینت کا حکم ہے، نہ میاں بیوی کو زمانۂ عدت میں علیحدہ رہنے کا حکم ہے ، بلکہ زوج اور زوجہ کے لیے ایک گھر میں رہنا جائز ہے۔ (غایۃ الأوطار:۲/۱۰۸)
(۲) اپنی مدخولہ بیوی کو ایسے تین طہر میں جس میںاس سے صحبت نہ کی ہو، ایک ایک کرکے تین طلاقیں دے دینا طلاقِ حسن ہے، کیوں کہ اس طرح طلاق دینے کی صورت میں اگر دو طلاقیں دینے کے بعد شوہر اپنے اس اِقدام پر نادم وشرم سار ہو، تو عدت کے اندر رجوع کرسکتا ہے۔