مسئلۂ تکفیر
آج کل کسی کو کافر قرار دینے میں ہمارے معاشرے میں بڑی افراط وتفریط پائی جاتی ہے، ایک طرف ذرا ذرا سے اختلاف کی بنا پر دوسروں پر کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں، تو دوسری طرف کوئی شخص کتنا ہی کافرانہ عقائد رکھے اس کے باوجود اگر وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، تو اسے کافر نہیں کہا جاتا، جب کہ حق اِن دونوں انتہاؤں کے درمیان ہے۔
تکفیر کے سلسلے میں اصول یہ ہے کہ جب کوئی شخص دین کی بدیہی وضروری باتوں میں سے کسی بات کا انکار کرے، یعنی ایسی بات کا انکار کرے جو قرآن وسنت سے ثابت ہو، اور قرآن وحدیث کی دلالت اس بات پر بلکل واضح اور یقینی ہو، کسی دوسرے معنی کا احتمال نہ ہو تو اس پر کفر کا حکم لگایا جائے گا،لیکن اگر یہ بات عام طور سے لوگوں میں دین کا حصہ ہونے کی حیثیت سے مشہور نہیں، تو پہلے اس کو متوجہ کیا جائے گاکہ آپ جس چیز کا انکار کررہے ہیں وہ دین کی ضروری وبدیہی باتوں میں سے ہے، اور اس کی قطعیت کے دلائل بھی اس کے سامنے پیش کیے جائیں، اگر وہ مان لیتا ہے تو وہ مسلمان ہے، اور اگر نہیں مانتا تو کافر ہوجائے گا۔
اس سلسلے میں دوسری بات یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ دین کی ضروری بات کے انکار پر کفر کا فتویٰ اسی وقت لگایا جائے گا، جب کہ انکار کرنے والے کا انکار بھی قطعی طور پر ثابت ہو، اگر کسی نے ایسا جملہ کہا جس میں انکار کے معنی بھی ہوں اور کوئی دوسرا معنی بھی، تو اس صورت میں کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔