چسپاں بتایاہے، یعنی طلاقِ رجعی دو ہیں، اس کے بعد رجعت کا حق نہیں، نیز اس آیت کا مقصدطلاقِ رجعی کی حد اور طلاقوں کی انتہائی تعداد بیان کرناہے، قطعِ نظر اس کے کہ یہ طلاق بلفظ واحد دی گئی ہو یا بالفاظِ مکررہ، ایک مجلس میں دی گئی ہو ، یامختلف مجلسوں میں، دو طلاقیں دی ہے تو دو ہی واقع ہوں گی، اسی طرح تین دی ہے تو تین ہی واقع ہوں گی۔ (۱)
تین طلاق کا ثبوت احادیث نبوی ا سے :
محمود بن لبید سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ آپ ا کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیدی ، تو آپ ا غضب ناک ہوئے،اور ارشاد فرمایا: ’’کیا کتاب اللہ کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے؟ حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں‘‘، آپ ا کا یہ غصہ دیکھ کر ایک صحابی کھڑے ہوگئے، اور عرض کیا :یا رسول اللہ! کیا اسے قتل نہ کردوں؟(۲)
حدیث مذکور سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ساتھ دی جانے والی تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، اگر واقع نہ ہوتیں، تو آپ ا غضب ناک نہ ہوتے، اور فرمادیتے کوئی حرج نہیں، رجوع کرلو ۔
حضرت عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کو حضور ا کے سامنے تین طلاقیں دیدی ، اور آپ ا نے ان کو نافذ کردیا ، یعنی تین کو ایک نہیں قرار دیا۔(۳)
عامر شعبی کہتے ہیں کہ میں نے فاطمہ بنت قیس سے کہا کہ آپ اپنی طلاق کا قصہ بیان کیجئے، تو انہوں نے کہا :میرے شوہر یمن گئے ہوئے تھے، انہوں نے وہیں سے مجھے تین طلاقیں دیدیں، اور آپ ا نے ان تینوں طلاقوں کے واقع ہوجانے کا فتویٰ صادر فرمایا۔(۴)