کیا مالی جرمانہ جائز ہے؟
مجرم کو کسی بھی جرم کی تنبیہ کے لیے کئی طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، اسے جیل کی سزا دی جاتی ہے، اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے، مارپیٹ کی جاتی ہے، کوڑے لگائے جاتے ہیں، سماجی بائیکاٹ کیا جاتا ہے، جرمانہ کے طور پر کچھ رقم وصول کی جاتی ہے، اس طرح کے مختلف طریقے ہیں جو مختلف معاشرے میں رائج ہیں، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے مجرم جرم سے باز آجائے، اس کی اصلاح ہو، دوسرے لوگ عبرت حاصل کریں، اور جرائم سے دور رہیں، اور معاشرے میں نظم وضبط، امن وسکون بر قرار رہے، سزا کے مختلف طریقوں میں مالی جرمانہ بھی ہے، جو بہت پُرانا اور جانا پہچانا طریقہ ہے، حکومتیں بھی جرمانہ عائد کرتی ہیں، اور گاؤں تھانہ علاقے کے ذمہ دار حضرات بھی۔
یہ جرمانہ اجتماعی بھی رہا ہے اور انفرادی بھی۔ کوئی ایسا جرم یا غفلت جو بہت سارے لوگوں سے ہو، اور جس غفلت کے برے نتائج سامنے آجائیں، ایسے موقع پر اجتماعی جرمانہ لگایا جاتا ہے، اور اگر کسی ایک یا چند حضرات کی غفلت یا جرم سے کوئی صورتِ حال سامنے آتی ہے، تو ایسے موقع پر انفرادی جرمانہ عائد کردیا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ مجرم کی اصلاح اور سرزنش کے لیے جرمانہ وصول کرنا اور مالی دھچکا لگانا درست ہے یا نہیں؟ شرعی نقطۂ نظر سے مالی جرمانہ کی گنجائش کہاں تک ہے؟
عام طور پر یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ فقہائے کرام اسے درست نہیں مانتے، تعزیرًا کسی سے کوئی رقم لینا فقہائے کرام نے ناجائز سمجھا ہے، ’’در مختار‘‘ میں یہ صراحت موجود ہے کہ فقہائے احناف کے نزدیک جرمانہ شرعاً ناجائز ہے۔ صرف امام ابو یوسف رحمہ اللہ