نوٹ-: بندہ کی حقیر سی رائے یہ تھی کہ جب جمعیت کے پلیٹ فارم سے اتنے اہم وابتلاء عام مسئلہ پر سمینار ہونے جارہا ہے، تو بہتر ہوتا کہ تمام علاقوں اور ریاستوں سے اس کاروبار سے جڑے اہم بڑے کاروباری حضرات کو مدعو کیا جائے، یا اُن سے پوری معلومات حاصل کی جائے، تاکہ صورتِ مسئلہ پوری طرح واضح ہوجائے، اور اس پر حکم شرعی کے انطباق میں کوئی تردّد باقی نہ رہے۔
خلاصۂ جوابات
زمینوں کا کاروبار
۱- غیر یقینی عقد کے بعد خریدار کا دوسرے کے ہاتھ زمین کا مالکانہ طور پر بیچنا جائز نہیں، البتہ دلال یا وکیل بن کر بیچ سکتا ہے۔
۲- اگر خریدار نے بیچ دیا تو وہ بہ حیثیت دلال یا وکیل محض اپنی متعینہ اجرت یا اس کے عدم تعین کی صورت میں اجرتِ مثل کا حق دار ہوگا، پورے نفع کا نہیں۔
۳- بیعا نہ دینے والوں کو معاملہ کے فسخ ہونے کی شکل میں محض اُن کے اِسار کی رقم واپس کی جائے گی، ڈبل نہیں، ورنہ یہ معاملہ سودی ہوگا۔
۴- اگر وقت پر مالک کو قیمت ادا کردی جائے، اور معاملہ حتمی وقطعی شکل اختیار کرلے، تو اس معاملہ کے حتمی وقطعی شکل اختیار کرنے سے پہلے جو عقود کیے گئے ، وہ اصل مالک کے ساتھ پایۂ تکمیل کو پہنچ جائیں گے، اور ان کی پوری قیمت کا حق دار اصل مالکِ زمین ہوگا،نہ کہ خریدار اول(بلڈر)۔
۵- اصل مالک کے ساتھ بلڈر کے معاملہ کے یقینی ہوجانے کے بعد ، چوں کہ بلڈر