مطالبات منوانے کے لیے ہڑتال کرتے ہیں، تو کارخانہ دار تالہ بندی کا حربہ استعمال کرتے ہیں، اور اس ہڑتال وتالہ بندی کی وجہ سے عام لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا ہے کہ ان کو ان کی ضرورت کی چیزیں بروقت دستیاب نہیں ہوتیں ، یا بہت مہنگی خریدنی پڑتی ہیں۔
اس غیر مناسب صورت کا علاج کرنے اور سرمایہ ومحنت کے تنازعہ کا حل نکالنے اور آجر(Employer) واجیر (Employee) کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے انسانی بستی کے دانش وروں، داناؤں اور ماہرینِ معاشیات نے جو کوششیں کی ہیں، اور اقوامِ متحدہ(The united nation) کے زیرِنگرانی عالمی ادارۂ محنت کا قیام عمل میں آیا، اور اس کے تیار کردہ قوانینِ محنت پوری دنیا میں ،خواہ مسلم ممالک ہوں یا غیر مسلم ، نہ صرف رواج پذیر ہیں ، بلکہ ان کو قانون کا درجہ حاصل ہے ، مگر ان قوانین سے بجائے اس کے کہ مالک و مزدور کا یہ تنازعہ ختم ہوتا کچھ زیادہ ہی اُلجھ گیا، جس کی وجہ سے ان چارہ گروں کی نادانی ہے، جو دل درد کاعلاج پنڈلی پر پٹی باندھ کر کرنا چاہتے ہیں۔
مالک اورمزدور کے اس تنازعہ کا حل :
اسلام دینِ فطرت ہے ، اس کا قانونِ محنت واجرت اخوت وبھائی چارہ پر مبنی ہے، دین نام ہے خیر خواہی کا ، اور جذبۂ خیر خواہی زندگی کے ہر میدان میں ضرور ی ہے(۱) ، جب کہ آج مالک ومزدور دونوں اس جذبہ سے عار ی اور خود غرضی ومفاد پرستی کی ذہنیت کے مالک ہیں ، مالک یہ چاہتا ہے کہ مزدور سے زیادہ سے زیادہ کام لے، پیداوار زیادہ کرے، زیادہ سے زیادہ نفع کو یقینی بنائے ، او رمزدور یہ چاہتا ہے کہ کام