’’یوگا‘‘ کی شریعتِ مطہرہ میں کوئی گنجائش نہیں!
اسلام ایک فطری ، طبعی ، نظری اورکامل دین ہے ، اس نے اپنے احکام میں اپنے ماننے والوں کی تمام ضرورتوں اورحاجتوں کا خیال رکھا ہے ، اسی لیے اس نے ہر اس چیز کو جائز قرار دیا، جس میں انسان کے لیے دنیوی راحت اور اُخروی سعادت ہے ، اور ہر اس چیز کو منع کیا جو اس کے لیے دنیا میں تکلیف اور آخرت میں ناکامی ونامرادی اور خدائی ناراضگی کا باعث ہوسکتی ہے ، صحت وتندرستی شرعاً مطلوب ہے ، اس لیے اس کی خاطر ریاضت وورزش بھی مطلوب ہے ، کیوں کہ صحت وتندرستی کا ایک ذریعہ ورزشِ جسمانی بھی ہے ، اور فقہ کا قاعدہ ہے : ’’ جو احکام مقاصد کے ہوتے ہیں، وہی احکام وسائل وذرائع کے بھی ہوتے ہیں ‘‘۔ ’’ وسیلۃ المقصود تابعۃ للمقصود وکلاہما مقصود ‘‘ ۔ (اعلام الموقعین :۳/۱۷۵)
لیکن مقاصد حسنہ کی تحصیل کے لیے وہی ذرائع اور وسائل اختیار کیے جاسکتے ہیں، جو شرعاً مباح ہوں، اس لیے صحت وتندرستی کی تحصیل کے لیے بھی وہی ورزشیں اور ریاضتیں جائز ہوںگی، جو شرعاً مباح ہوں۔
آج کل ایک ورزش جسے ہم ’’یوگا‘‘ کے نام سے جانتے ہیں، بہت عام ہورہی ہے، جب کہ اس کی حقیقت کو جاننے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عقائد اسلام ، تعلیماتِ اسلام کے سراسر خلاف اور متصادم ہیں ، مثلاً :
(۱)یوگیوں کا یہ عقیدہ کہ یوگا سے صحت وتندرستی حاصل ہوتی ہے، یہ اسلامی عقیدے