نکا ح نعمت ،طلاق ضرورت
فرمانِ باری تعالیٰ ہے : {ومن اٰیٰتہ أن خلق لکم من أنفسکم أزواجًا لتسکنوٓا إلیہا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ}۔ اور اسی کی نشانیوں میں ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس کی بیویاں بنائیں ، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو ، اور اس نے تمہارے (یعنی میاں بیوی کے ) درمیان محبت وہمدردی پیدا کردی۔ (سورۃ الروم :۲۱)
نکاح اللہ کی ایک نعمت ہے ، جب یہ رشتہ قائم کیا جاتاہے تو اس میں پائیداری ودوام مقصود ہوتا ہے ، اس رشتے کے ذریعہ اللہ تعالیٰ زوجین کو اولاد کی نعمت سے نوازتا ہے ، اور اللہ رب العزت کا یہ فیصلہ کہ دنیا تا قیامِ قیامت آبادر ہے ، پورا ہوتا ہے ۔
’’ فإنہ لما حکم اللّٰہ تعالی ببقاء العالم إلی یوم القیامۃ ومعلوم أنہ لا یبقی ما لم یکن بینہم معاملۃ یتہیأ بہا معاشہم من البیع والإجارۃ ونکاح مبقیًا لہذا الجنس بالتوالد ‘‘ ۔ (نور الأنوار:ص/۱۷۸)
علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اللہ رب العزت نے بہت سی حکمتوں ، مصلحتوں اور منفعتوں کے پیشِ نظر نکاح کو جائز قراردیا ، من جملہ ان مصالح وحِکم کے ایک حکمت ومصلحت یہ ہے کہ اس روئے زمین پر نوعِ انسانی ، اصلاحِ ارض اور اقامتِ شرائع کے لیے اس کی نائب بن کر قیامت تک باقی رہے ، اور یہ مصلحتیں اسی وقت متحقق ہوسکتی ہیں جب کہ ان کی بنیاد مضبوط اور مستحکم ستونوں پر ہوں ، اور وہ ہے نکاح۔
ویسے تو نسلِ انسانی کاوجود مرد وعورت کے ملاپ سے ممکن تھا ، خواہ وہ ملاپ کسی بھی طرح کا ہو تا ، لیکن اس ملاپ سے جو نسل وجود میں آتی وہ اصلاحِ ارض اور اقامتِ شرائع کے لیے موزوں ومناسب نہ ہوتی ، نسلِ صالح نکاح سے ہی وجود میں آسکتی ہے، کیوں کہ قاعدہ ہے :’’فاسد سے فاسد اور باطل سے باطل وجود میں آتا ہے ‘‘۔ ’’ ما بني علی فاسد أو