ماتنِ ’’کنز الدقائق‘‘ نے (لا بمکۃ ومنی)میں دو شہروں کی قید اس لیے لگائی کہ اگر دو ایسے مقام (جو اِقامت کی صلاحیت رکھتے ہو ں)میں کوئی شخص پندرہ روز ٹھہرنے کی نیت کرے، تو وہ مقیم نہیں ہوگا۔ اس میں اس سے احتراز مقصود ہے کہ اگر ایک ہی شہر کے دو مقاموں، یا ایک ہی گائو ں کے دو مقاموں میں پندرہ روز ٹھہرنے کی نیت کرے، تو یہ نیتِ اقامت صحیح ہوگی، کیوںکہ ایک شہر کے دو مقام یا ایک گائوں کے دو مقام حکماً ایک ہی ہیں۔دورِ حاضر میں چوںکہ مکہ اور منیٰ ایک ہی شہر شمار ہورہے ہیں، اس لیے اگر حاجی دونوں مقاموں کے قیام کو ملا کر پندرہ روز ٹھہرنے کی نیت کرتا ہے، تو وہ مقیم ہوگا، اور اپنی نمازیں پوری پڑھے گا، قصر نہیں کرے گا۔ (۲/۲۳۳، ط : بیروت)
/…/…/
وطن اصلی سے تعلق باقی رکھتے ہوئے کسی اور مقام پر مستقل قیام کی صورت میں قصر واتمام کا حکم ؟
سوال: وطن اصلی سے تعلق باقی رکھتے ہوئے کسی اور مقام پر مستقل قیام کی صورت میں قصر واتمام کا کیا حکم ہوگا؟
جواب: کھانے پینے کی طرح رہائش انسان کی بنیادی ضرورت ہے، فرمانِ خداوندی ہے:{واللّٰہُ جَعلَ لکُم مِن بُیوْتِکُم سَکَنًا} - ’’اللہ نے تمہارے گھر تمہاری رہنے کی جگہ بنائی۔‘‘ (سورہ النحل:۸۰)
اسی لیے انسان اپنی اور اپنے اہل وعیال کی رہائش کے لیے، جس جگہ مکان بناتا ہے، اور اس میں رہائش اختیار کرتا ہے، اُس کو فقہائے کرام اُس کا وطنِ اصلی قرار دیتے