اپنے کاموں میں مصروف ہیں، نہ کھانے کی فکر، نہ قیلولہ کی، تو آپ کی اِسی دُھن ولگن کو دیکھ کر حضرت امیر شریعت رابع نے فرمایا:
’’مولانا نظام الدین صاحب!اگر چاہتے ہو کہ کچھ مدت اور قوم وملت کی خدمت کرسکو، تو دوپہر میں کھانے کے بعد کچھ قیلولہ کرلیا کرو‘‘
حضرت ناظم صاحب نے حضرت امیر شریعت کے اِس ارشاد کا جواب محض اپنی ہلکی سی مسکراہٹ سے دیااور بس! خدا جانے آپ کی اِس معنی خیز مسکراہٹ کاکیا مطلب تھا؟مگریوں لگتا ہے کہ گویا آپ اپنی اِس ہلکی سی مسکراہٹ سے حضرت امیر شریعت رحمۃ اللہ علیہ کو مؤدبانہ انداز میں یہ جواب دے رہے ہوں کہ ؛ حضرت! آپ اپنے اِس ارشادِ عالی سے ہم خُردوں پر اپنی شفقتیں بہرہ ور فرمارہے ہیں یہ آپ کا مقامِ عالی ہے، لیکن عہدۂ نظامت پر فائز ہونے کے بعد زندگی کا ہر لمحہ امارتِ شرعیہ کے کاموں اور قوم وملت کی خدمت میں صرف کردوں، یہ میرا فرض ہے، اور اِس فرضِ منصبی سے عہدہ برآں ہونے کے لیے میں ہر لمحہ کوشاں وسرگرداں رہتا ہوں، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرا لمحہ ، لمحۂ موت ہو، اور اِس فرض کی ادائیگی میرے ذمہ باقی رہ جائے۔(واللہ اعلم)
قومی مال میں احتیاط:
امارتِ شرعیہ کے زمانۂ قیام میں، میں نے بارہا دیکھا، کہ جب بھی امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید منت اللہ صاحب رحمانی بذریعۂ ٹرین لکھنؤ، دہلی اور دیوبند وغیرہ کا سفر فرماتے،اور پٹنہ ریلوے اسٹیشن سے آپ کا گزر ہوتا، تو حضرت ناظم صاحب رحمۃ اللہ علیہ نیاز مندانہ انداز میں حضرت امیر شریعت کی زیارت وملاقات کے لیے تشریف لے جاتے، کبھی ہم طلبہ کو بھی ساتھ لے لیتے، اور جب واپسی ہوتی ، تو فوراً بیت المال