(۲) جـــواب : (الف): قرآن کریم کو رسمِ عثمانی اِجماعی توقیفی کے علاوہ کسی اور عجمی رسم الخط میں لکھنا بالاجماع ناجائز ہے ، غیر عربی داں حضرات کو تلاوتِ قرآن میں سہولت کی خاطر انہیں عربی رسم الخط سکھایا جائے ، محض غیر عربی داںحضرات کی سہولت کے خاطر اجماعِ امت کا فیصلہ نہیں بدلا جاسکتا، نیز حفاظتِ قرآن کی مصلحت پر کسی اور مصلحت کو ترجیح نہیں دی جاسکتی(۵)،اور قرآن کریم چوں کہ اُن مقدس الفاظ کا نام ہے جو کلامِ الٰہی کی حیثیت سے آں حضرت ا پر نازل ہوئے۔ گویا قرآن کریم حقیقت میں وہ خاص عربی الفاظ ہیں جن کو قرآن کہا جاتا ہے۔ (۶)
(ب): عربی رسم الخط اور رسمِ عثمانی میں متنِ قرآن کو باقی رکھتے ہوئے کسی اور زبان کے رسم الخط میں قرآن کو لکھنے کی اجازت نہیں ہوگی، کیوں کہ غیر عربی رسم الخط میں لکھنے سے عبارت مصحف مسخ ہوجائے گی، مثلاً - ح ، ذ، ز، ض، ظ - میں نمایاں فرق نہیں رہے گا، سب کی صورت یکساں ہوگی، اصل مخارج وصفات سے ان کو ادا نہیں کیا جائے گا، استعلاء ، اطباق، استطالت سب کچھ ضائع کردیں گے۔ (۷)
(ج): غیر عربی رسم الخط میں تنہا قرآن کی اشاعت درست نہیں ہے۔ (۸)
بریل کوڈ میں قرآن مجید کی کتابت
(۳) ســـوال : (الف): بریل کوڈ میں کے عربی رسم الخط اور رسم عثمانی نہ ہونے کے باوجود کیا نابیناؤں کی مجبوری کی بنا پر بریل کوڈ میں قرآن تیار کرنا درست اور مستحسن ہے؟
(ب): بریل کوڈ میں تیار کردہ قرآن کا حکم کیا اصل قرآن کی طرح ہے کہ اس کو