خفیف ہوکر رہ گیا، اور چپ سادھ لی۔
قدرت کا تماشہ دیکھئے کہ کشتی کچھ ہی دور گئی تھی کہ دریا میں طوفان آگیا، موجیں منہ پھیلائے ہوئے بڑھ رہی تھیں، اور کشتی ہچکولے لے رہی تھی، معلوم ہوتا تھا کہ اب ڈوبی تب ڈوبی، دریا کے سفر کا لڑکوں کو پہلا تجربہ تھا، ان کے اوسان خطا ہوگئے، چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں، اب جاہل ملاّح کی باری آئی، اس نے بڑی سنجیدگی سے منہ بناکر پوچھا: ’’ بھیّا تم نے کو ن کون سے علم پڑھے ہیں؟‘‘
لڑکے اس بھولے بھالے جاہل ملاّ ح کا مقصد نہیں سمجھ سکے ، اور کالج یا مدرسہ میں پڑھے ہوئے علوم کی لمبی فہرست گنانی شروع کردی، اور جب بھاری بھر کم اور مرعوب کُن نام گنا چکے ، تو اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا: ٹھیک ہے یہ سب تو پڑھا، لیکن کیا پیراکی بھی سیکھی ہے؟ اگر خدا نخواستہ کشتی اُلٹ جائے توکنار ے کیسے پہنچ سکوگے؟ لڑکوں میں کوئی بھی پیرنا نہیں جانتا تھا، انہوں نے بہت افسوس کے ساتھ جواب دیا: ’’چچا جان یہی ایک علم ہم سے رہ گیا، ہم اسے نہیں سیکھ سکے۔‘‘
لڑکوں کا جواب سن کر ملاّح زور سے ہنسا اور کہا : میاں میں نے تو اپنی آدھی عمر کھوئی ، مگر تم نے پوری عمر ڈبوئی ، اس لیے کہ اس طوفان میں تمہارا پڑھا لکھا کچھ کام نہ آئے گا، آج پیراکی ہی تمہاری جان بچاسکتی ہے، اور وہ تم جانتے ہی نہیں۔‘‘
دنیوی ترقیات کے حصول میں ہمارے اور غیروں کے اصول جدا گانہ ہیں!:
بعض دانش وریہ کہتے ہیں کہ اگر ہماری فلاح وبقا، عزت وترقی علومِ دینیہ پر منحصر ہوتی، تو غیروں نے کہاں علومِ دینیہ حاصل کیے ، جب کہ آج وہ زندگی کے ہر میدان