قید یوں کے حقوق
۱- جس شخص کو ثبوتِ جرم کے فراہم ہوئے بغیر قید کیاجائے، تو اسے متہم کہتے ہیں ، اور متہم دوحال سے خالی نہیںہوتا: یاتو وہ معروف الحال ہوگا، یا مجہول الحال۔ پھر معروف الحال دو حال سے خالی نہیں، یاتو معروف بالبر والصلاح والتقویٰ ہوگا (جس کا صلاح وتقوی اور نیکی معلوم ہو)، یا معروف بالفسق والفجور ہوگا(جس کا فسق وفجور معلوم ہو)۔
صورتِ اولیٰ کا حکم: جس شخص کاصلاح وتقویٰ معلوم ہو، ایسے شخص کو محض تہمت کی بنا پر گرفتار کرنا جائز نہیں(۹)،اور جس شخص کا فسق و فجور معلوم ہو،اسے گرفتار کرناجائز ہی نہیں، بلکہ اولیٰ ہے۔(۱۰)
صورتِ ثانیہ کا حکم: جس شخص کا صلاح وتقویٰ اور فسق وفجور معلوم ومشہور نہ ہو، اسے انکشافِ حال تک قید میں رکھنا درست ہے۔(۱۱) -البتہ متہم شخص کوکتنی مدت قید میں رکھاجاسکتا ہے، تواس سلسلے میںاقلِ مدت کی تو کوئی حد نہیں ، مگر اکثرِمدت کے بارے میں فقہائے کرام کے مختلف اقوال ہیں، علامہ ابن تیمیہ؛ امام مالک، امام احمدرحمہم اللہ اور ان کے اصحاب، اور احناف کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ متہم مجہول الحال کی اکثرِمدتِ حبس حاکم کے اجتہا د پر مبنی ہے ، یعنی متہم شخص کو اس وقت تک قید میں رکھاجائے گا، جب تک کہ اس کے حالات ظاہر نہ ہوجائیں۔(۱۲)-اوربعض فقہائے کرام کے نزدیک اکثرِ مدتِ حبس ایک دن، بعض کے نزدیک دو یاتین دن ہیں،اوربعض حضرات نے ایک مہینے کی بھی اجازت دی