جواب: ۲- اگر کسی نے اس طرح عوض لے لیا ، تو دوبارہ اس کے مالک کو واپس لوٹادے۔
سوال: ۳- کیا عرفِ عام کی وجہ سے اس طرح کے حقوق کو مالِ متقوم کی حیثیت دی جاسکتی ہے؟
جواب:۳- بیع میں مال کی شرط جوہری ہے، مال کی حقیقت نصوصِ شرعیہ نے متعین نہیں کی، پس اُس کا اصل مدار ہر عہد کے اُس عرف ورواج پر ہے جو شریعت سے متصادم نہ ہو، وہ تمام حقوق جن کی مشروعیت اصالۃً نہیں بلکہ صاحبِ حق سے کسی ضرر کو دور کرنے کے لیے ہوتی ہے، ایسے حقوق پر عوض لینا جائز نہیں، جیسے شفعہ ۔
جو حقوق نصوصِ شرعیہ سے ثابت ہوں، البتہ اُن سے مالی منفعت متعلق ہوگئی اور عرف میں اُن کا عوض لینا مروج اور معروف ہوچکا ہو، نیز ان کی حیثیت دفعِ ضرر کی نہ ہو، اور نہ وہ شریعت کے عمومی مقاصد ومصالح سے متصادم ہوں، ایسے حقوق پر عوض حاصل کرنا جائز اور درست ہے۔ (نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے: ص/۱۴۲)
حقوق کی بیع سے متعلق اسلامک فقہ اکیڈمی کی اِس تجویز پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سوال نامہ میں مذکور حقوق کو مالِ متقوم کی حیثیت دے کر اُن کی بیع کو جائز نہیں کہا جاسکتا۔
جوابات بابت طویل مدتی کرایہ
سوال: ۱- ہندوستان کے طول وعرض میں یہ بات بکثرت سامنے آتی ہے کہ ایک شخص کسی دکان یا مکان کا کرایہ دار ہوتا ہے، اور وہ مکان سالوں سے معمولی کرایہ پر اس کے تصرف میں رہتا ہے، اور ملکی قانون کے اعتبار سے لمبی مدت سے قابض کرایہ