جائزنہیں ہوگا(۲۸)،لیکن جب اس کے فرار ہونے کا اندیشہ ہو، تو شرعاً اس کی اجازت ہوگی۔(۲۹)
۵- کسی مجر م کواس کے خصوصی جرم کے پس منظر میں، اس طرح قید کرنا کہ پوری دنیاسے اس کے ربط وتعلق کے مواقع ختم ہوں، شرعاً جائز ہونا چاہیے۔(۳۰)
۶- جیل میں قیدیوں سے جبراً کام لینا شرعاً جائزنہیں ہے (۳۱)، اور اگر لیا گیا تو وہ اس کام کی اجر ت کے مستحق نہیں ہوں گے، کیوں کہ اگر انہیں مستحقِ اجرت قرار دیا جائے، تواس صورت میں جبراً عقدِ اجارہ کی صحت کا قائل ہونا لاز م آتا ہے ، جب کہ عقدِ اجارہ کی صحت کے لیے طرفین کی رضامندی شرط ہے ، اور یہاں یہ شرط مفقود ہے(۳۲)، توجوکام قیدیوںسے جبراً لیے گئے اسے استہلاکِ منافع کہا جائے گا، اور استہلاکِ منافع مضمون بالقیمت نہیںہوتے (۳۳)، اس لیے اس صورت میں قیدی اجرت کے مستحق نہیں ہوں گے۔
۷- جن قیدیوں کا مقدمہ ابھی زیرِ سماعت ہے، اورجن کے بارے میں سزائے قید کا فیصلہ ہوچکا ہے، قید خانوں میں باعتبارِ سلوک کے ان دونوں میں فرق کیا جانا جائز ہی نہیں،بلکہ لازم ہے،کیوں کہ ثبوتِ جرم کے فراہم ہوئے بغیر اس کے ساتھ وہ سلوک روا رکھنا، جو ان مجرموں کے ساتھ کیا جاتا ہے، جن کی سزا کا حکم صادر ہوچکا ، سراسر ظلم وزیادتی اور نا انصافی ہے، جو شرعاً ناجائز وحرام ہے۔(۳۴)
۸- جزء نمبر ایک میں ہم نے متہم کی جو تقسیم کی ہے، اس اعتبار سے صرف متہم معروف بالفسق والفجور،اور متہم مجہول الحال ہی کوظہورِ حال اور تحقیق طلب اُمورکی