سے زیادہ ذہنی وفکری تربیت پر توجہ دیں،کیوں کہ یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ ’’جب انسان اندر سے بدلتا ہے ، تو اس کا ظاہر بھی بدلتا ہے، اورپھر اندرسے بدلے ہوئے انسان کو بدلنا انتہائی مشکل ہوتا ہے‘‘ ،تو ہمیں وہی کام کرنا چاہیے جس کے نقوش واثرات کو دوسرا ماحول اور افراد نہ بدل سکیں،اور اس کے لیے ضروری ہوگا کہ خود استاذ وٹیچر ،…؛
فکرِ اسلامی کا حامل ہو ، مادی کا نہیں ،
فکرِ اخروی کا حامل ہو، دنیوی کا نہیں،
نفعِ عام کی فکر کا حامل ہو، ذاتی وشخصی کا نہیں،
اور یہ کام منتظمین ومینجمنٹ کا ہے کہ وہ ایسے اساتذہ کا تقرر عمل میں لائیں، جو ان اوصاف سے متصف ہوں۔ ورنہ تعلیم کے نتائج ہمارے اور آپ کے سامنے ہیںکہ:
٭ ’’طلبہ کے دلوں میں اساتذہ کی تعظیم نہیں ، کیوں کہ طلبہ تعلیم حاصل نہیں کررہے ہیں، بلکہ خرید رہے ہیں،اور اساتذہ تعلیم دے نہیں رہے ہیں ، بلکہ فروخت کررہے ہیں۔‘‘
٭’’ استاذ کی تعظیم طلبہ کے دلوں میں ،اسکولوں کی دیواروں پر اقوالِ زرّین کندہ کرنے سے پیدا نہیں ہوتی، بلکہ یہ اس صورت میں پیدا ہوتی ہے ، جب اساتذہ طلبہ کو اپنا حقیقی اثاثہ سمجھیں۔‘‘
٭ ’’تعلیم سے مالی مفادات وابستہ ہوچکے ہیں ، اس لیے تعلیمی معیار گھٹ گیا، استاذ مالی منفعت کے لیے پڑھا رہا ہے اور طالبِ علم مالی منفعت کے لیے پڑھ رہے ہیں۔‘‘
امام سرخسی رحمہ اللہ اور کنویں میں ’’مبسوط ‘‘کی تالیف:
امام سرخسی رحمہ اللہ کے ایک عبرت آموز واقعہ پر اپنی اس مختصر تحریر کو ختم کرتا ہوں،