’’حضرت مولانا نظام الدین صاحب جید عالم دین، ملت کے بڑے قائدتھے،مولانا کا انتقال ملت کا عظیم خسارہ ہے۔‘‘
خادمِ کتاب وسنت ، معمارِ مدارس ومساجد، حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم نے فرمایا:
’’حضرت امیرِ شریعت بزرگوں کی روایتوں کے امین، اُن کے اخلاق واوصاف کا مظہر، اور قوم وملت کے سچے ومخلص خادم تھے، آپ پوری عمر نہ صرف اتحادِ قوم وملت کے عَلَم بردار رہے، بلکہ اخیری دم تک اس کے لیے کوشاں بھی رہے، آپ کاوصال امتِ مسلمہ کے لیے ایک عظیم نقصان ہے۔‘‘
صدر جمعیۃ علمائے ہند مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے امیر شریعت کے سانحۂ ارتحال پر اپنے گہرے رنج وغم کااظہار کرتے ہوئے کہا :
’’مولانا مرحوم دار العلوم دیوبند کے ہونہار فضلاء میں شمار کیے جاتے تھے، مولانا کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اس کی کسک ہندوستانی مسلمان مدتوں محسوس کریں گے۔‘‘
کچھ یادیں اپنی
نماز وںکا اہتمام:
۱۹۸۸ء میں جب یہ حقیر، سراپا تقصیر، امارتِ شرعیہ پھلواری شریف میں شعبۂ افتا وقضا میں زیر تربیت وتدریب تھا، تو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنی پیرانہ سالی اور ضعفِ بصارت کے باوجود ،بلا ناغہ ، فجر کی نماز کے لیے اولِ وقت میں اپنے گھر سے امارتِ شرعیہ تشریف لے آتے، کارکنان وطلبہ کو نماز کے لیے جگاتے، اذان