فقہی مسائل اور اختلافِ ائمہ
عا م طو ر پر یہ با ت سننے میں آ تی ہے کہ جب مسا ئل و احکا م شر عیہ کتا ب و سنت سے ثا بت ہیں ، تو پھر ان میں اختلا ف کیو ں ہے؟ کہ ایک امام کسی چیز کو جا ئز کہتا ہے تو دو سر ا اسے نا جا ئز ۔ ایک کسی چیز کو مکرو ہ قر ار دیتا ہے تو دو سر ا غیر مکر وہ ۔ دل میں با ت آ تی ہے کہ اس سو ا ل کے متعلق جوا باً چند سطر یں سپر د قر طا س کی جائیں ،تا کہ جہا ں عو ا م کو ا ن کے اس سو ال کا جو اب مل جائے، وہیں ہمارے طلبۂ عز یز بھی اس سے مستفید ہو ں ۔
فقہ اسلا می پر نظر کر نے سے معلو م ہو تا ہے کہ اس کے احکا م چا ر طر ح کے ہیں :
۱- بعضے احکا م وہ ہیں جو کتا ب و سنت ( قر آ ن و حد یث ) سے بلا کسی تعا ر ض و اختلاف کے ثا بت ہیں ، جیسے نما ز ، روزہ، حج اور ز کوۃ وغیرہ کی فرضیت اِن نصو ص سے ثا بت ہے :
(۱) نما ز : {ان الصلوۃ کانت علی المؤمنین کتاباً موقوتا} ۔ ’’یقینا نماز مسلمانوں پر فرض ہے اور وقت کے ساتھ محدود ہے۔ ‘‘ (سورۃ النساء : ۱۰۳)
(۲) روز ہ : {یا یہا الذ ین اٰمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون}۔ ’’ تم پر روزہ فرض کیا گیاجس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزہ فرض کیا گیا تھا، اس توقع پر کہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘ (سورۃ البقرۃ: ۱۸۳)
(۳) زکوٰ ۃ : {واٰتوا الزکوٰۃ} ۔ ’’اور دو زکوٰۃ ۔ ‘‘ (سورۃ البقرۃ : ۴۳)
(۴) حج : { وللّٰہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا} ۔ ’’ اور اللہ کے( خوش کرنے کے) واسطے لوگوں کے ذمہ اس مکان کا حج کرنا (فرض) ہے، (مگر سب کے ذمہ نہیں بلکہ خاص خاص کے) یعنی اس شخص کے جو کہ طاقت