مقالہ
(پانچواں فقہی سمینار [اعظم گڑھ] بتاریخ: ۳-۶؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۱۰ھ، مطابق: ۳۰؍ اکتوبر- ۲؍ نومبر ۱۹۹۲ء)
موجودہ حالات میں ’’انشورنس‘‘ کا حکم
سوال: اِدھر خصوصیت کے ساتھ جو صورتِ حال پورے ملک میں پیدا ہورہی ہے، اور فرقہ پرست قوتوں نے جس طرح پورے ملک میں نفرت کا زہر پھیلا دیا ہے، اس صورتِ حال میں جس طرح مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے، اور ان کی جان ومال اور عزت وآبرو ہر وقت خطرہ میں ہے، خاص کر ان کی صنعت وتجارت کو تباہ کرکے معاشی طور پر ان کی کمر توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس کے پیشِ نظر کیا مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ جان ومال کا انشورنس کراسکیں۔
۱- کیا آپ کے نزدیک فقہی نقطۂ نظر سے جان ومال کے عمومی خطرہ کو دیکھتے ہوئے اسے ضرورتِ شدیدہ ، یا اس حاجت کا درجہ دیا جاسکتا ہے، جسے فقہا بہ درجہ ضرورت (الحاجۃ تتنزل منزلۃ الضرورۃ) کو تسلیم کرتے ہیں۔
۲- اور موجودہ حالات میں یہ دیکھتے ہوئے کہ کہاں، کب کیا ہوجائے گا، کہنا مشکل ہے، کیا اسے عمومی ملی ضرورت تسلیم کیا جاسکتا ہے، جس کی روشنی میں مسلمانوں کو اپنی زندگی اور اپنی تجارت کے انشورنس کرانے کا مشورہ دیا جائے؟
۳- ہندوستان میں انشورنس کمپنیاں عام طور پر سرکاری ہوتی ہیں، کیا اس صورتِ حال سے حکمِ مسئلہ پر کچھ فرق پڑے گا؟