زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے۔
نیز کثرتِ ضحک غفلت عن ذکر اللہ کا سبب بنتی ہے، اور بتکلف قہقہے لگانا اور بلاوجہ ہنسنا بھی انسان کی ہیبت ووقار اور وجاہت وعظمت کو گھٹادیتا ہے،احنف رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:’’اے احنف ! جو(بلا وجہ) زیادہ ہنستا ہے اس کی ہیبت کم ہوجاتی ہے۔ ‘‘ (۱۳)
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کثرتِ کلام بغیر ذکر اللہ کے دل کو سخت کردیتا ہے(۱۴)،اور ایک جگہ فرماتے ہیں:بہت زیادہ ہنسا ،اور ہنسنے میں غلو کرنا وقار کو ختم کردیتا ہے(۱۵)، اور ضابطہ ہے کہ ’’ذریعۂ محذور بھی محذور ہوتا ہے‘‘(۱۶)، اس لیے ہنسنے ہنسانے کے پروگرام منعقد کرنا ، اس میں بتکلف قہقہے لگانا، اور دیر تک ہنسنے کی کوشش کرتے رہنا، شرعاً جائز اور درست نہیں ہونا چاہیے۔
(۲) تفریحی کھیل
سوال:۲- تفریحی مقصد کے لیے مختلف قسم کے کھیل بھی مروج ہیں، جن میں بعض کھیل گھنٹ دو گھنٹہ کے ہوتے ہیں، اور بعض کھیل زیادہ وقت لیتے ہیں، بعض ایسے کھیل بھی ہوتے ہیں، جو انسان کی جان کے لیے خطرناک ہوتے ہیں، جیسے: باکسنگ، بعض کھیلوں میں جانوروں کو سخت تکلیف پہنچتی ہے، جیسے جانوروں کا باہمی مقابلہ موجودہ زمانے میں کھیل نے مستقل فن کی صورت اختیار کرلی ہے، سرکاری سطح پر اس کی مستقل وزارت ہوتی ہے، اور خاصا بجٹ اس مقصد کے لیے منظور کیا جاتا ہے، اس پس منظر میں واضح کیا جائے کہ: